دہشت گردی کا ذمہ دار اسلام کوسمجھنے والے دہشت گردوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں،صدربراک اوبامہ،داعش جیسی تنظیمیں دہشت گردی کیخلاف جنگ کو” اسلام اور مغرب کے درمیان جنگ“ کے طور پیش کررہی ہیں ، دہشت گرد ہم میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں،ملک بھر میں امریکیوں کو اپنے مسلم دوستوں، پڑوسیوں کے پاس جانا چاہیے، امریکی عوام ہر طرح کی ہٹ دھرمی کو مسترد کردیں،قوم سے خطاب

پیر 14 دسمبر 2015 09:39

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14دسمبر۔2015ء) امریکی صدر براک اوبامہ نے امریکیوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ حالیہ دہشت گردی کا ذمہ دار اسلام کو سمجھتے ہیں تو وہ اس وقت دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں،داعش جیسی تنظیمیں دہشت گردی کیخلاف جنگ کو” اسلام اور مغرب کے درمیان جنگ“ کے طور پیش کررہی ہیں ، دہشت گرداسلام اور مغرب کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں،ملک بھر میں امریکیوں کو اپنے مسلم دوستوں، پڑوسیوں اور دیگر کے پاس جانا چاہیے، امریکی عوام ہر طرح کی ہٹ دھرمی کو مسترد کردیں۔

ریڈیو پر امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے براک اوبامہ نے امریکی شہریوں کو یاد دلایا کہ داعش جیسے مختلف دہشت گرد گروپس ہیں جو کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو اسلام اور مغرب کے درمیان جنگ کے طور پر پیش کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

انھوں نے خبردار کیا کہ ’داعش کے دہشت گرد ہمیں مذہب کے نام پر تقسیم کررہے ہیں۔ وہ اس سے خوف کو بھڑکا رہے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے وہ اپنی عددی قوت کو بڑھاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جیسا کہ دنیا میں رہنے والے تمام مسلمان اسلام کی تبدیل شدہ تشریح کو مسترد کرتے آئے ہیں، ہم سب کو بھی ہر قسم کے تعصب کو مسترد کرنا چاہیے‘۔امریکی صدر نے کہا کہ ’میں یہ ایک بار پھر کہنا چاہتا ہوں، تعصب اور امتیازی سلوک کے ذریعے سے داعش کو مدد ملتی ہے جو کہ ہماری قومی سلامتی کو کمزور کررہا ہے۔انھوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ امریکا کے بہت سے کھلیوں کے ہیروز، جن میں باکسنگ کے چیمئپین محمد علی بھی شامل ہیں، نے مذہبی متعصب کی مذمت کی ہے۔

براک اوباما نے کہا کہ ملک بھر میں امریکیوں کو اپنے مسلم دوستوں، پڑوسیوں اور دیگر کے پاس جانا چاہیے اور ان کو بتانا چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے ہیں۔سب سے اہم بات جو ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ امریکی اپنے اقدار کی سچائی سے پاسداری کریں۔اْنھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ مذہب اور نسل کی بنیاد پر ہم میں دراڑ ڈالیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوف پھیلاتے ہیں۔

اِسی طرح ہی وہ (دہشت گردوں کی) بھرتی کرتے ہیں۔صدر اوباما نے امریکیوں پر زور دیا کہ ہر طرح کی ہٹ دھرمی کو مسترد کیا جائے۔ اْنھوں نے کہا کہ تعصب اور امتیاز کا رویہ داعش کے شدت پسند گروہ کا پسندیدہ ہتھیار ہے، جس سے ہماری قومی سلامتی کو دھچکا لگ سکتا ہے۔اوباما نے بتایا کہ وہ پیر کو پینٹاگان جائیں گے اور بعدازاں اْسی ہفتے انسدادِ دہشت گردی کے قومی مرکز جائیں گے، جہاں اِس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ داعش کے شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں کیا کچھ کیا جا رہا ہے اور مزید کیا کچھ ہو سکتا ہے۔

امریکی سربراہ نے یہ بھی کہا کہ محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی انتباہ کے اپنے نظام میں بہتری لائے گا، تاکہ امریکیوں کو بروقت اطلاعات میسر آسکیں، جس میں وہ اقدام بھی شامل ہوں گے، جنہیں اختیار کرکے بہتر طور پر چوکنہ اور محفوظ رہا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ کیلیفورنیا کے علاقے سان برناڈینو میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد امریکی صدر کا گذشتہ ایک ہفتے میں یہ تیسرا خطاب ہے، مذکورہ حملے میں 14 افراد ہوگئے تھے۔

امریکی صدر تقریبا اپنے تمام خطبات میں کہہ چکے ہیں کہ مغرب اور مسلمان دنیا کو اسے صورت حال کو مذہبی جنگ میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، ایسا کرنا ہم سب کو نقصان پہنچائے گا۔ٹیکساس میں ایک ریلی کے دوران ایک امریکی لڑکی کی جانب سے اٹھائے جانے والے پلے کارڈ جس پر تحریر تھا کہ ’ہم اپنے مسلم پڑوسیوں سے محبت کرتے ہیں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’میں اْمید کرتا ہوں کے اس پیغام کو سب مسلمانوں نے سنا ہوگا کہ اہم سب ایک امریکی خاندان کا حصہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو کہ والدین کو اپنے بچوں، اساتذہ کو اپنے شاگردوں اور سیاست، تجارت اور ماحول میں موجود رہنماوٴں کو دینا چاہیے۔