مسلح درندے اللہ اکبر کے نعرے لگا کر بچوں کو شہید کر رہے تھے،لواحقین، آج بھی ڈراؤنے خواب سے نیند میں ڈر جاتے ہیں، 3 ماہ تک ہوش و حواس میں نہیں تھے اب بھی شدید دباؤ میں ہیں، محمد اکبر خان،والدہ عندلیب آفتاب، کاشان ظہیرکی گفتگو

پیر 14 دسمبر 2015 09:28

پشاور‘ اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14دسمبر۔2015ء) سانحہ اے پی ایس پشاور کو ایک سال مکمل ہونے پر شہید طلباء کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ مسلح درندے اللہ اکبر کے نعرے لگا کر بچوں کو شہید کر رہے تھے‘ آج بھی ڈراؤنے خواب سے نیند میں ڈر جاتے ہیں۔ 3 ماہ تک ہوش و ہواس میں نہیں تھے اب بھی شدید دباؤ میں ہیں‘ معصوم طلباء کی شہادت کا باعث بننے والی سوچ کو پھانسی دینے کی ضرورت ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق محمد عمر کے والد محمد اکبر خان‘ شہید حزیفہ کی والدہ عندلیب آفتاب‘ کاشان ظہیر نے اس واقعے پر بات کی ہے۔ کاشان ظہیر نے کہا کہ وہ حملے کے وقت کی جانے والی فائرنگ کو مصنوعی سمجھے جب خون میں لت پت طلبہ کو گرتے دیکھا تو کرسیوں کی قطار میں گھس گیا‘ گولی میرے پیر کے آر پار ہو گئی۔

(جاری ہے)

شہید سکول ٹیچر کے شوہر عمر بٹ نے کہا کہ ان کی بیوی طبیعت کی خرابی کے باوجود سکول گئی کہ بچوں کا حرج ہو گا۔

بینش کی نعش فرش پر پڑی تھی‘ سویٹر اور ہاتھ سے پہچانا‘ بینش کی شہادت کے وقت سب سے چھوٹی بیٹی 4 ماہ کی تھی تینوں کو ان کی ماں کی قبر پر لے گیا۔ ایک بچہ کہہ رہا تھا بابا پانی کی بوتل لے آؤ پیاس لگی ہے خون بہت بہہ رہا ہے۔ والدہ ناصرہ زیب کہتی ہیں کہ اکیلے سو رہا ہے۔ حسن اورنگزیب کے والد کہتے ہیں کہ حسن کو پشت پر گولی لگی تھی اور وہ بھاگتے ہوئے سٹاف روم میں گرا۔

متعلقہ عنوان :