Dengue Aik Khatarnak Marz - Article No. 2795

Dengue Aik Khatarnak Marz

ڈینگی ایک خطرناک مرض - تحریر نمبر 2795

موسم بدلتے ہی پورا پاکستان اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے

پیر 18 دسمبر 2023

ڈاکٹر آمنہ خان
جونہی موسم بدلتا ہے تو ڈینگی کے مرض میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے،پنجاب سمیت پورا پاکستان اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔جب بھی یہ بیماری وبا کی شکل اختیار کرنے لگتی ہے تو متعلقہ انتظامی ادارے اور محکمہ صحت سب اپنے اپنے محاذ پر ڈینگی کیخلاف ڈٹ جاتے ہیں تاہم اس کیلئے انفرادی کاوشیں سب سے زیادہ اہم ہیں۔

ڈینگی ایک مخصوص مچھر ”ایڈیز“ کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔اس مچھر کا جسم کالا ہوتا ہے اور اس پر سفید رنگ کے دھبے ہوتے ہیں۔یہ گندگی کی بجائے صاف پانی میں پرورش پاتا ہے۔یہ مچھر ڈینگی کے وائرس کو ڈینگی سے متاثرہ انسان کے خون سے حاصل کر کے صحت مند انسان کو منتقل کر دیتا ہے۔یہ مچھر ایک دفعہ بیمار انسان کو کاٹنے کے بعد اپنی تمام عمر ڈینگی وائرس کو صحت مند انسانوں میں منتقل کرتا رہتا ہے۔

(جاری ہے)

ڈینگی وائرس کی چار اقسام ہیں اور یہ اہم بات یاد رکھیں کہ وائرس کی ایک قسم کا حملہ زندگی میں صرف ایک ہی بار ہوتا ہے۔ڈینگی بخار ہونے کا زیادہ خطرہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ڈینگی کو ”بریک بون فیور“ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں ہڈیوں اور پٹھوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ڈینگی بخار کی شدید شکل کو ”ڈینگی ہیمرجک فیور“ کہتے ہیں۔
اس قسم کے مریض کے منہ،ناک وغیرہ سے خون نکلنا شروع ہو جاتا ہے اور مریض کی موت واقع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ڈینگی وائرس سے آلودہ مچھر کے صحت مند انسان کو کاٹنے اور ڈینگی بخار کی علامات ظاہر ہونے میں سات سے دس دن تک کا وقفہ لگ سکتا ہے۔ڈینگی وائرس خون جمانے والے خلیات یعنی بلڈ پلیٹلیٹس کی تعداد کو کم کر دیتا ہے۔ڈینگی فیور کی ابتدائی علامات شدید فلو جیسی ہو سکتی ہیں۔
ابتداء میں بخار،سر درد اور سردی لگتی ہے۔آنکھوں کے پیچھے والے حصے میں شدید درد ہوتا ہے۔دوسری علامات میں کمزوری پسینہ آنا،بلڈ پریشر کم ہونا،بھوک نہ لگنا،جسم پر دھبوں کا نمودار ہونا،سانس لینے میں دشواری،پیٹ میں درد اور قے وغیرہ شامل ہیں۔کمر اور جسم کے تمام جوڑوں خاص طور پر ٹانگوں میں شدید درد ہوتا ہے۔چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور یہ سرخی جسم کے باقی حصوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔
گردن اکڑ جاتی ہے اور نیند بھی نہیں آتی۔گردن میں گلٹیاں بھی نمودار ہو سکتی ہیں،بخار کی شدت 104 تک ہو سکتی ہے۔روشنی اچھی نہیں لگتی اور آنکھوں کے گھمانے پر درد ہوتا ہے۔
تین سے چار دنوں میں بخار میں کمی آ جاتی ہے اور مریض کی حالت سنبھلنے لگتی ہے اور تمام علامات ختم ہو جاتی ہیں،مریض نارمل محسوس کرنے لگ جاتا ہے لیکن بہتری کی یہ حالت تقریباً ایک دن تک قائم رہتی ہے اور پھر دوبارہ بخار چڑھ جاتا ہے۔
بخار کے ساتھ تمام جسم پر باریک سرخ دانے نکل آتے ہیں جو کیفیت میں خسرے جیسے ہوتے ہیں مگر اس بار چہرہ محفوظ رہتا ہے۔ہتھیلیاں اور تلوے سوج کر سرخ ہو جاتے ہیں۔اگر خون جمانے والے خلیات بلڈ پلیٹلیٹس کی مقدار خاصی کم ہو جائے تو مریض کی جلد کے نیچے آنتوں اور ناک و مسوڑھوں وغیرہ سے خون جاری ہو جاتا ہے۔یہ حالت بہت خطرناک ہے اور جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے اس لئے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
ڈینگی فیور کی اس قسم کو ”ڈینگی ہیمرجک فیور“ کہتے ہیں۔مریض شاک میں چلا جاتا ہے۔بیہوشی کے ساتھ ساتھ مریض کا جسم ٹھنڈا ہونے لگتا ہے۔
اس حالت میں مریض کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ مریض بار بار شاک میں جا سکتا ہے۔اس کو آکسیجن اور خون کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔اس بیماری کا کوئی مخصوص علاج نہیں ہے،کسی قسم کی اینٹی بائیوٹک اور اینٹی وائرل دوا اس مریض میں کارآمد نہیں،اُلٹا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
صرف پیراسیٹامول سے مریض کے بخار کو کم کیا جا سکتا ہے۔مریض کو اسپرین،بروفن یا اس سے ملتی جلتی ادویات نہ دیں اور ایسی ادویات بھی نہ دیں جن میں اسپرین یا بروفن کی معمولی مقدار بھی شامل ہو۔یاد رکھیں ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کسی قسم کی دوا کا استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔مریض کو پانی اور مشروبات کا زیادہ سے زیادہ استعمال کروایا جائے۔
اگر مریض کھا پی نہ سکتا ہو تو اس کو ڈرپ لگانی چاہئے۔اگر پلیٹلیٹس کم ہو جائیں تو اس صورت میں پلیٹلیٹس کی ڈرپ لگانی ضروری ہے۔ڈینگی فیور سے متاثرہ افراد کو وٹامن کے،وٹامن بی اور وٹامن سی پر مشتمل خوراک کا استعمال کروائیں تاکہ اس کا مدافعتی نظام بہتر ہو جائے۔
حفاظتی اقدامات
اس سلسلے میں سب سے اہم بات مچھروں (ایڈیز) کا خاتمہ کرنا ہے ہفتے میں دو سے تین بار گھر دفاتر اور دکانوں میں صفائی کر کے مچھر مار ادویات کا اسپرے کریں اور تمام دروازے کھڑکیاں اور روشندان ایک گھنٹے کیلئے بند کر کے وہاں سے ہٹ جائیں۔
اس مچھر یعنی ایڈیز کے بارے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مچھر صاف پانی میں پرورش پاتا ہے اس لئے ایسی تمام جگہوں سے پانی خشک کر دیں اس کے علاوہ اگر کہیں سے پانی لیک ہو رہا ہو تو اس کو درست کروائیں۔چند برس قبل امریکہ میں ڈینگی کے مریض سامنے آنے پر تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ڈینگی بخار امریکی بندرگاہ پر پرانے درآمد شدہ ٹائروں میں کھڑے پانی کی وجہ سے پھیلا۔پاکستان میں بھی اس بات کے شواہد ملے ہیں۔فی الوقت ڈینگی بخار سے بچاؤ کی کوئی ویکسین بازار میں نہیں ملتی اس لئے ڈینگی بخار سے بچاؤ کیلئے احتیاط ہی سب سے اہم بات ہے۔

Browse More Dengue