Dengue Phir Sar Uthane Laga - Article No. 2540

Dengue Phir Sar Uthane Laga

ڈینگی پھر سر اُٹھانے لگا - تحریر نمبر 2540

حالیہ تباہ کن سیلاب کے باعث اس میں اضافے کا امکان ہے

بدھ 21 ستمبر 2022

ڈاکٹر آصف خان
ان دنوں پاکستان میں ڈینگی کا مرض ایک مرتبہ پھر اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔پنجاب خیبر پختونخوا،سندھ و دیگر صوبے بالخصوص بڑے شہر لاہور،راولپنڈی،پشاور اور کراچی اس کی لپیٹ میں ہیں اور اس مرض میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔بدقسمتی سے اس کی وجہ مناسب آگاہی اور حفاظتی تدابیر کا نہ ہونا ہے اور عام سی بیماری مہلک اور خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے۔
دراصل ڈینگی ایک انفیکشن ہے جو ایک خاص وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔یہ بیماری ایک مخصوص مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے جس کی ٹانگیں عام مچھروں کی نسبت ذرا لمبی ہوتی ہیں۔کسی متاثرہ شخص کو کاٹنے سے یہ وائرس اس مچھر میں آجاتا ہے اور اس کے بعد اگر یہ مچھر کسی دوسرے شخص کو کاٹ لے تو یہ وائرس اس میں منتقل ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ڈینگی بخار عموماً ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔


چار مختلف اقسام کے وائرس انسانوں میں ڈینگی بخار کا باعث بنتے ہیں۔ایک قسم کے وائرس کا حملہ صرف ایک بار ہی ہو سکتا ہے۔دوسری مرتبہ ڈینگی بخار دوسری قسم کے وائرس سے ہو سکتا ہے اور یوں زندگی میں کسی بھی شخص کو زیادہ سے زیادہ چار مرتبہ یہ عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔ڈینگی بخار کا دوسرا نام بریک بون فیور (Break Bone Fever) بھی ہے۔اسے یہ نام اس لئے دیا جاتا ہے کہ اس بخار کے دوران ہڈیوں اور پٹھوں میں اتنا شدید درد ہوتا ہے کہ ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور یہ مرحلہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔
یہ بیماری گرم اور نیم گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے اور دنیا بھر میں دس کروڑ سے زائد افراد ہر سال اس سے متاثر ہوتے ہیں۔تاہم بروقت علاج سے اس مرض سے صحت یابی کا تناسب بہت زیادہ ہے اور 99 فیصد مریض اس سے مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔یعنی ایک فیصد سے بھی کم لوگوں میں یہ مہلک شکل اختیار کرتا ہے۔دیگر مچھروں کے برعکس ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بڑا صفائی پسند ہوتا ہے گندے تالابوں اور جوہڑوں کی بجائے یہ مچھر گھریلو واٹر کولر،ٹینکوں کے قرب و جوار،صاف پانی سے بھرے برتنوں،پودوں کے گملوں،غسل خانوں اور بارش کے صاف پانی میں تقریباً سارا سال ہی پلتا رہتا ہے۔

تاہم برسات کے موسم میں تیزی سے افزائش نسل کرتا ہے۔عموماً یہ مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کیونکہ مچھر دن کے کسی بھی حصے میں کاٹ سکتے ہیں۔وائرس زدہ مچھر کے صرف ایک ہی بار کاٹنے سے یہ بیماری انسان میں منتقل ہو جاتی ہے۔یہاں اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بیماری براہ راست ایک شخص سے دوسرے شخص (Person From Topersor) کو منتقل نہیں ہوتی بلکہ مخصوص مچھر ہی اس کے انتقال کا باعث بنتا ہے۔
اس لئے ڈینگی سے متاثرہ مریض سے علیحدہ ہونے کی بجائے مچھروں کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔بعض اوقات جو مریض کو علیحدہ رکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ متاثرہ شخص کو کاٹ کر مچھر مزید بیماری پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔
وائرس کو لے جانے والے مچھر کے کاٹنے کے دو سے سات روز کے اندر ڈینگی کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ان علامات میں تیز بخار،سردی لگنا،جسم میں شدید درد اور کمزوری،بیماری کے دوران ٹانگوں اور جوڑوں میں شدید درد،سر درد اور خاص کر آنکھوں کے پیچھے شدید درد اور منہ کا ذائقہ کڑوا ہونا وغیرہ ہیں۔
ڈینگی بخار کی یہ علامات دو تا چار دن رہنے کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔مریض کو پسینہ زیادہ آتا ہے اور نارمل محسوس کرنے لگتا ہے مگر بہتری کی یہ حالت تقریباً ایک دن رہتی ہے جس کے بعد بخار دوبارہ تیزی سے چڑھ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی جسم پر باریک دانے نمودار ہو جاتے ہیں۔اس بار چہرہ محفوظ رہتا ہے البتہ ہتھیلیاں اور مسوڑھے سوج کر سرخ ہو جاتے ہیں۔

پرہیز علاج سے یقینا بہتر ہوتا ہے اور ڈینگی بخار کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس سے بچاؤ تبھی ممکن ہے جب ہم اس کے مخصوص مچھر کو پھلنے پھولنے سے روک دیں۔اس سے اہم بات ایسی جگہوں پر سپرے ہے جہاں مچھر پیدا ہوتے ہیں۔اس طرح کھڑے پانی کو نکالنے کا انتظام کیا جائے۔مچھر دانی کا استعمال کیا جائے،گھروں میں گملوں کا پانی روزانہ تبدیل کیا جائے۔
ڈینگی کی علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر مستند معالج سے رابطہ کیا جائے۔اگر ہم اپنے اردگرد ماحول کی صفائی کا خیال رکھیں تو اس سے نہ صرف ہم ڈینگی بخار بلکہ بہت سی دیگر بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔خدا نخواستہ اگر ڈینگی بخار کی تشخیص ہو جائے تو گھبرانے کی بجائے مناسب اور بروقت علاج احتیاط اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔اس طرح ہم باآسانی اس مرض کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
لوگ اپنے پیمانے پر احتیاط کریں کیونکہ صرف احتیاط ہی اس مرض کی روک تھام میں مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ٹھہرے ہوئے پانی کو گھر میں جمع نہ ہونے دیں،پودوں اور گھاس کے قریب نہ جائیں گھر میں مچھر مار سپرے کا استعمال کریں اور کھانے پینے کی اشیاء کو ڈھانپ کر رکھیں کہ چھوٹی چھوٹی احتیاط سے ڈینگی جیسے بڑے اور مہلک مرض سے بچا جا سکتا ہے۔
ڈینگی بخار کا باعث بننے والے مچھر بڑے صفائی پسند ہیں۔
یہ خطرناک مچھر گندے جوہڑوں میں نہیں بلکہ بارش کے صاف پانی،گھریلو واٹر ٹینک کے آس پاس،صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں اور گلدانوں،گملوں وغیرہ میں رہنا پسند کرتے ہیں جو گھروں میں عام طور پر سجاوٹ کے لئے رکھے جاتے ہیں۔تاہم سرد موسم میں ان کی افزائش نسل رک جاتی ہے،ڈینگی وائرس کا سبب بننے والی مادہ مچھر کو اپنے انڈے دینے کے لئے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے،مادہ مچھر پروٹین کی تلاش میں انڈے کے مقام سے 25 سے 30 کلو میٹر دور پالتوں جانوروں،بھینسوں کے باڑوں میں جانوروں کو کاٹ کر اپنی غذا اور پروٹین کو حاصل کرتی ہے تاہم جانور نہ ملنے کی صورت میں مادہ مچھر انسانوں کو کاٹتی ہے تو اپنے ڈنگ سے 8 سے 10 سیکنڈ کے لئے اس جگہ کو سن کر دیتی ہے اور اس دوران جراثیم مچھر سے انسان سے منتقل ہو جاتا ہے۔

قارئین کرام!ملک میں مون سون سیزن اور حالیہ تباہ کن سیلاب کے باعث ڈینگی میں بہت زیادہ اضافے کا امکان ہے۔اس کے علاوہ وفاقی و صوبائی حکومتوں،مقامی انتظامیہ کی ناقص منصوبہ بندی اور صفائی ستھرائی کے نامناسب انتظامات اس مرض کی موجودہ لہر میں اضافے کی وجہ بن سکتے ہیں تاہم حکومتی توجہ،موثر حکمت عملی اور جامع منصوبہ بندی کی جائے تو ہم اس مہلک بیماری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

Browse More Dengue