پاکستانی ڈاکٹروں کا مقامی سطح پر بیالوجیکل مصنوعی جلد تیار کرنے کا دعویٰ ،

پیوند کی قیمت ایک ہزار روپے سے بھی کم ہے

جمعہ 9 نومبر 2018 16:50

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 نومبر2018ء) پاکستانی ڈاکٹروں نے مقامی سطح پر بیالوجیکل مصنوعی جلد تیار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پیوند کی قیمت ایک ہزار روپے سے بھی کم ہے ،مصنوعی جلد تیار کرنے والے ڈاکٹر وں کا دعویٰ ہے کہ بیالوجیکل جلد قدرتی جلد کے قریب ترین ہے ۔بی بی سی کے مطابق لاہور میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم کے مطابق جھلس جانے والے زیادہ تر افراد میں اموات انفیکشن اور جسم سے پانی اور نمکیات کے تیزی سے اخراج وغیرہ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ قدرتی جلد کے جل جانے کے بعد اس کے نیچے کے اعضا ء جراثیم کے لیے افشا ء ہو جاتے ہیں۔انفیکشن کو روکنے کے لیے انسانی جلد کے اس بیالوجیکل نعم البدل کی پیوندکاری ایسے مریض کی زندگی بچانے کے لیے انتہائی موزوں ذریعہ ہے۔

(جاری ہے)

اس طریقے سے انفیکشن اور اہم سیال کے ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔تاہم پاکستان میں اب تک اے سیلولر ڈرمل میٹرکس یا انسانی جلد کا بائیولوجیکل نعم البدل تیار نہیں کیا جا رہا تھا اور اسے درآمد کرنا پڑتا تھا۔

درآمد شدہ جلد کا نعم البدل انتہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں کی پہنچ سے باہر تھا۔انہوں نے بتایا کہ تقریباً ایک مربع انچ درآمد شدہ بیالوجیکل مصنوعی جلد کے پیوند کی قیمت لگ بھگ 900 امریکی ڈالر ( تقریباً ایک لاکھ پاکستانی روپے )سے زیادہ پڑتی ہے۔لیکن اب چند پاکستانی ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مقامی سطح پر بیالوجیکل مصنوعی جلد تیار کر لی ہے۔

ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق مقامی طور پر تیار کی جانے والی جلد کے پیوند کی قیمت ایک ہزار پاکستانی روپے سے کم ہے۔لاہور کے جناح ہسپتال کے برن سنٹر میں قائم ایک لیبارٹری میں ڈاکٹر رئوف احمد ان دنوں مصنوعی جلد کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے مائیکروبیالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جلد کے دو اقسام کے مصنوعی نعم البدل ہو سکتے ہیں۔

ایک بیالوجیکل یا حیاتیاتی اور دوسرا سینتھیٹک یعنی کیمیاوی ترکیب سے بنائی گئی۔سِنتھیٹیک جلد کا نقصان یہ ہے کہ ایک تو اس کا انسانی خلیوں کے ساتھ جڑنا مشکل ہوتا ہے، دوسرا اس کی حیت کو زیادہ لمبے عرصے تک قائم رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ لگ جانے کے بعد اس کے خراب ہونے کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔جلد کا جو نعم البدل ڈاکٹر رئوف نے تیار کیا ہے وہ بیالوجیکل جلد ہے۔

یہ قدرتی جلد کے قریب ترین ہوتا ہے یعنی تقریباً قدرتی جلد جیسا ہی ہوتا ہے۔مصنوعی جلد سرجری کے دوران بچ جانے والی اضافی انسانی جلد یا پھر گائے یا بھینس کی جلد سے بھی تیار کی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر رتوف کے مطابق پہلے مرحلے میں مختلف کیمیکلز کی مدد سے جلد کے اوپری حصے سے تہہ ہٹائی جاتی ہے یعنی تکنیکی اصطلاح میں اسے ڈی ایپی ڈرملائز کیا جاتا ہے۔

اگلے مرحلے میں اسے ڈی سیلولیرائز کیا جاتا ہے۔ان دونوں مراحل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس میں موجود ہر قسم کے وائرس وغیرہ کو ہٹا دیا جائے اور اسے مدافعتی (سسٹم کی طرف سی)مسترد ہونے سے بچایا جا سکے۔اگلے مرحلے میں اسے سٹیرلائز کیا جاتا ہے تا کہ اسے جراثیم سے پاک رکھا جائے۔ ان تمام مرحلوں کو مختلف مشینوں کی مدد سے سر انجام دیا جاتا ہے۔یو ایچ ایس کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ انہوں نے جینیاتی امراض پر تحقیق کی غرض سے ملک کی مختلف لیبارٹریوں پر مشتمل ایک شراکت قائم کر رکھی ہے۔

اس طرح ہمیں مختلف لیبارٹریوں میں موجود مشینیںاستعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ڈاکٹر رئوف کے مطابق اس کی وجہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ وہ کیمیکلز یا کیمیائی مادہ ہیں جنہیں استعمال کر کے یہ جلد تیار کی جاتی ہے۔ ان کی لیبارٹری کی مختلف اداروں کے ساتھ شراکت داری ہے جہاں سے وہ کیمیکلز حاصل کرتے ہیں۔پاکستان کے لحاظ سے میں نے کوشش کی کہ ایسے کیمیکلز استعمال کیے جائیں جو کام بھی وہی دیں اور مہنگے بھی نہ ہوں۔

وہ مصنوعی بیالوجیکل جلد کا ایک پیوند آٹھ دن میں تیار کر پاتے ہیں۔ پاکستان میں ہمارے پاس بلڈ بینکس کی طرح جلد کا بینک نہیں ہے ورنہ ہم زیادہ جلدیں تیار کر سکتے ہیں۔چھوٹے پیمانے پر تیار ہونے والی جلد برن سنٹر کی حد تک تو استعمال میں لائی جا سکتی ہے مگر کاروباری بنیاد پر نہیں۔ڈاکٹر رئوف کا دعوی ہے کہ انہوں نے مقامی طور پر تیار کی جانے والی جلد کا موازنہ یورپ اور امریکہ سے درآمد شدہ جلدوں سے کیا ہے اور وہ باالکل اسی معیار کی ہے، بلکہ کچھ پہلوئوں پر ان جلدوں سے بہتر بھی ہے۔

ڈاکٹر جاوید اکرم نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اسے یو ایس ایف ڈی اے یعنی امریکہ کے ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے منظور کروا چکے ہیں۔ ہم نے ابتدائی طور پر اسے تقریباً 18 مریضوں پر کامیابی سے استعمال کیا ہے۔اگلے مرحلے میں اسے پہلے جانوروں اور پھر بڑے پیمانے پر انسانوں پر آزمایا جائے گا۔ اس کے بعد یہ کاروباری سطح پر تیار کیے جانے کے لیے دستیاب ہو گی۔

ڈاکٹر جاوید کا کہنا ہے کہ کاروباری سطح پر اس کی تیاری ہی سب سے کٹھن مرحلہ ہو گا۔ اس کی وجہ ان کے مطابق امپورٹ مافیا ہے کیونکہ ایک تلخ تجربے سے وہ پہلے گزر چکے ہیں۔جو کمپنی سالانہ اربوں روپے کی ادویات درآمد کر رہی ہو وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کا وہ کاروبار بند ہو جائے۔ان کی مشکل تب زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں جس کے ذریعے ان ایجادات کو کم قیمت پر کاروباری سطح پر تیار کروایا جا سکے۔

ڈاکٹر جاوید کے مطابق یہ وہ نجی کمپنیاں ہیں جو ادویات درآمد کرتی ہیں۔ جب مقامی سطح پر کوئی کم قیمت دوا بننا شروع ہو جائے تو قدرتی طور پر درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اس لیے یہ کمپنیاںکوشش کرتی ہیں کہ ایسی کوئی دوا ء مقامی سطح پر تیار ہونے ہی نہ دی جائے۔ اس کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے اشتراک نے اب تک 27 فارماسوٹیکل یا دوا پر مبنی پروٹین تیار کر رکھیں ہیں۔

ان میں انٹر فیرون انجکشن بھی شامل ہے جو ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کو دیا جاتا ہے۔جو انٹرفیرون مقامی سطح پر تیار کیا تھا اس کی قیمت محض 1200 روپے جبکہ جو درآمد کیا جا رہا تھا اس کی قیمت 12 ہزار روپے پڑتی تھی۔ایک کمپنی جو سالانہ 40 ارب روپے کا انٹر فیرون درآمد کر رہی ہو اس کے لیے چند کروڑ روپے میں کوئی اچھا سا وکیل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔

ڈاکٹر جاوید کا کہنا تھا کہ کبھی عدالتوں میں کیس تو کبھی منظوری کے چکروں میں پھنسا کر آخرکار ان کے سستے انٹرفیرون کو ختم کروا دیا گیا۔آخر میں ہم سے کہا گیا کہ آپ اس کا فارمولا ہمیں بیچ دیں۔ مگر بات پھر وہیں آ جاتی کہ وہ اپنی مرضی سے اس کی زیادہ قیمت مقرر کرتے ہیں اور ہمارا یہ مقصد نہیں تھا۔انہوں نے اپنا کام کر دیا۔ اب یہ حکومت کا کام تھا کہ وہ اس سستی بیالوجیکل مصنوعی جلد کو کاروباری سطح پر تیار اور دستیاب کروائے۔

Browse Latest Health News in Urdu

6 گھنٹے سے کم کی نیند ذیا بیطس کے اضافی خطرات کا سبب قرار

6 گھنٹے سے کم کی نیند ذیا بیطس کے اضافی خطرات کا سبب قرار

ہومیو پیتھک طریقہ علاج  سے ہزاروں مریض بغیر آپریشن کے شفا یاب ہو رہے ہیں ، صدرڈاکٹرخادم حسین کھیڑا

ہومیو پیتھک طریقہ علاج سے ہزاروں مریض بغیر آپریشن کے شفا یاب ہو رہے ہیں ، صدرڈاکٹرخادم حسین کھیڑا

’’ پنز‘‘مفت ادویات کی فراہمی میں صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں پہلے نمبر پرآگیا

’’ پنز‘‘مفت ادویات کی فراہمی میں صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں پہلے نمبر پرآگیا

ہارٹ اٹیک کے مریضوں کیلئے پہلا گھنٹہ انتہائی اہم ہوتا ہے،بروقت علاج سے  زندگی بچائی جاسکتی ہیں، ایم ..

ہارٹ اٹیک کے مریضوں کیلئے پہلا گھنٹہ انتہائی اہم ہوتا ہے،بروقت علاج سے زندگی بچائی جاسکتی ہیں، ایم ..

میو ہسپتال میں گردوں کی پتھریوں کیلئے جدید طریقہ علاج پی سی این ایل اپنا لیا گیا

میو ہسپتال میں گردوں کی پتھریوں کیلئے جدید طریقہ علاج پی سی این ایل اپنا لیا گیا

دوگھنٹے سے زیادہ سمارٹ فون اور ڈیوائسزکا استعمال آپ کو توجہ کی کمی‘ جینیاتی عارضے اور مسلسل ذہنی خلفشار ..

دوگھنٹے سے زیادہ سمارٹ فون اور ڈیوائسزکا استعمال آپ کو توجہ کی کمی‘ جینیاتی عارضے اور مسلسل ذہنی خلفشار ..

سول ہسپتال میں جدید طبی سہولیات کی فراہمی کا عزم، ڈی سی جہلم نے جدید ترین آپریشن تھیٹر کا افتتاح کر دیا

سول ہسپتال میں جدید طبی سہولیات کی فراہمی کا عزم، ڈی سی جہلم نے جدید ترین آپریشن تھیٹر کا افتتاح کر دیا

پنجاب میں 24 گھنٹوں کے دوران نمونیا سے مزید 5 بچے دم توڑ گئے

پنجاب میں 24 گھنٹوں کے دوران نمونیا سے مزید 5 بچے دم توڑ گئے

پاکستان میں ایک کروڑستر لاکھ سے زائد لوگ گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں

پاکستان میں ایک کروڑستر لاکھ سے زائد لوگ گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں

سرکاری ہسپتالوں میں سی ٹی سکین سروسزکی آؤٹ سورسنگ کے معاہدے پردستخط

سرکاری ہسپتالوں میں سی ٹی سکین سروسزکی آؤٹ سورسنگ کے معاہدے پردستخط

2050 تک ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ایک ارب 30 کروڑتک پہنچ سکتی ہے

2050 تک ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ایک ارب 30 کروڑتک پہنچ سکتی ہے

پاکستان بھر میں آج کل لوگوں کے بیمار ہونے کا سبب بننے والے مرض کی نشاندہی کر دی گئی

پاکستان بھر میں آج کل لوگوں کے بیمار ہونے کا سبب بننے والے مرض کی نشاندہی کر دی گئی