لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 اپریل2021ء) ٹائیفائیڈ پھیلاؤ اور ممکنہ
علاج سرکاری اداروں کیلئے لمحہ فکریہ بن گیا۔سبھی کو معلوم ہے کہ ٹائیفائیڈ بخار ایک مہلک اور زندگی کیلئے خطرناک بیماری ہے جو سالمونیلا ٹائی نامی بیکٹیریا کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ یہ عام طور پر زہریلے اثرات والی خوراک کھانے سے یا ایسا
پانی پینے سے لاحق ہوتی ہے۔ یہ بیماری ایک دفعہ انسانی جسم میں داخل ہو جائے تو بڑی تیزی سے خون میں پھیلتی ہے۔
آبادی کے شہروں کی طرف نقل مکانی اور ماحولیاتی آلودگی نے عام طور پر ٹائیفائیڈ کے پھیلاؤ کو بہت پڑھادیا ہے۔ اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے اندھادھند استعمال سے انسانی جسم میں ان ادویات کے خلاف انسانی جسم میں بڑھتی ہوئی مزاحمت نے ٹائیفائیڈ بکٹیریا کا پھیلاؤ بہت آسان بنادیا ہے خصوصا شہروں میں پھیلتی ہوئی پرہجوم آبادیوں اور ان میں نامناسب صفائی ستھرائی اور
پانی کی نکاسی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے ٹائیفائیڈ بہت عام ہے۔
(جاری ہے)
ٹائیفائیڈ سے بچاؤ میں دو چیزیں میں بہت اہم ہیں ایک تو مناسب صفائی ستھرائی اور پینے کے صاف
پانی کی فراہمی اور دوسرا ٹائیفائیڈ کی مناسب ویکسین ہے ۔ کئی سالوں سے دو قسم کی ویکسین ٹائیفائیڈ بخار سے بچاؤ کیلئے استعمال کی جارہی ہے۔ انجکشن کے ذریعے دی جانے والی ویکسین جو 2 سال سے بڑے بچوں کو لگائی جاتی ہے۔ جب کہ دوسری منہ کے ذریعے کھائی جانے والی دوائی جو کپسول کی شکل میں 5 سال یا اس سے بڑی عمر والوں کو دی جاتی ہے۔
تاہم یہ دوائیاں عام طور پر لمبے عرصے کیلئے حفاظت فراہم نہیں کرتیں اور ان بچوں کیلئے استعمال نہیں کی جا سکتیں جو دو سال سے بھی چھوٹے ہوں ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 2017 میں ایک نئی ٹائیفائیڈ ویکسین منظور کی جو 2 سال سے چھوٹے بچوں کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتی ہے۔ یہ ویکسین جسے Tcv کانام دیا گیا لمبے عرصے تک بیماری سے حفاظت فراہم کرتی ہے اور 6 ماہ یا اس سے بڑی عمر کے ہر انسان کیلئے موثر ہے۔
حفاظتی ٹیکوں کا توسیعی پرگرام ایک ترجیحی اقدام ہے جو
پنجاب گورنمنٹ نے اٹھایا اس پروگرام کا مقصد ان 3.63 ملین بچوں کو حفاظت فراہم کرنا ہے جو سات مختلف بیماریوں کا ممکمہ شکار ہو سکتے ہیں ٹائیفائیڈ بھی ان بیماریوں میں شامل ہے جن سے بچا جاسکتا ہے بشرطیکہ مناسب وقت پر ویکسین لگوائی جائے۔
پاکستان کی آب و ہوا اور ماحول ٹائیفائیڈ کے بیماری کیلئے بہت سازگار ہے اور اس وبا کے پھیلنے کے امکانات یہاں بہت زیادہ ہیں۔
TCV ویکسین کی ایجاد نے اس مسئلے کا بہت اچھال دیا ہے۔ حال ہی میں
پنجاب کے 12 اضلاع میں ایک مہم چلائی گئی جس میں %98 ممکنه بیماری کے شکار بچوں کوTCV کی گئی۔ اس مہم کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ
پنجاب میں رہنے والے ہر اس بچے کو ویکسین دی جا سکے جو زندگی میں کسی بھی سٹیج پر اس بیماری کا شکار ہوسکتا ہے۔ لیکن یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ جگہ جگہ کھلے ریسٹورنٹس اور وہاں کام کرتے ورکرز بھی اس بیماری کے پھیلاؤ کا بہت بڑا سبب ہیں۔
اس بیماری کو ختم کرنا انسانی صحت اور بہو کیلئے اشد ضروری ہے۔ ویکسین جنتی بچوں کے لیےضروری ہے اتنی ہی فوڈ ڈیلیوری کا کام کرنے والے یا پھر ریسٹورانٹس میں کام کرنے والے ورکرز کے لیے ضروری ہے کیونکہ انہی کی وجہ سے یہ بیماری پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہے۔ TCV ویکسین چونکہ ٹائیفائیڈ کیلئے بہت ہی موثر ثابت ہوتی ہے لہذا سرکاری اداروں اور حکومت کو اس طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے۔
تمام ریسٹورنٹس اور وہاں کام کرنے والے تمام ورکرز کیلئے یہ ویکسین لگوانا لازمی ہونا چاہئے۔اگرچہ
پاکستان میں فوڈ سے متعلقہ لوگوں کی اپنی صحت یا صفائی ستھرائی کے حوالے سے کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے لیکن
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے پاس متعلقہ ڈیٹا ضرور موجود ہیں جب کہ محکمہ صحت کے پاس ویکسین بھی موجود ہیں، اگر یہ دونوں ادارے معاملے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے اس پر غور کریں تو
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے پاس موجود ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے فوڈ ورکرز کو بھی یہ ویکسین دی جا سکتی ہے اور ٹائیفائیڈ کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکتا ہے۔
لیکن و اہم اور بڑے سرکاری اداروں کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سےلاکھوں جانے داؤ پرلگی ہوئی ہیں اور ٹائیفائیڈ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اگرچہ ہمارے پاس وسائل موجود ہیں لیکن یہ حکام کی نا اہلی ہے جس وجہ سے فوڈ وکررز ویکیسن سے محروم ہیں اور ٹائیفائیڈ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ڈبلیو ایچ او نے بھی فوڈ ورکرز کے لیے ویکسینیشن کو لازمی قرار دیا ہے تاکہ وہ ٹائیفائیڈ کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن سکیں۔
پاکستان کے بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں
کورونا کے علاوہ ٹائیفائیڈ بخار میں مبتلا مریضوں کی بڑی تعداد داخل ہو رہی ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔رواں سال حکومت نے مزاحمتی ٹائیفائیڈ کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر حکومت نے خصوصی انسداد ٹائیفائیڈ مہم چلانے کا فیصلہ کیا ، مہم میں 9 ماہ تا 15سال کے بچوں کو انسداد ٹائیفائیڈ ٹیکے لگائے جائیں گے۔ حکومتِ
پاکستان نے یہ نئی ویکسین ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے ذریعے منظور کروائی تھی۔لیکن ٹائیفائیڈ کے خاتمے کے لیے یا اسے کم کرنے کے لیے بچوں کے ساتھ ساتھ فوڈ ورکرز کی ویکسینیشن لازم ہے جس کے لیے
پنجاب فوڈ اتھارٹی اور محکمہ صحت کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔