Wah, Wah Dera Ghazi Khan Police !

واہ ،واہ ڈیرہ غازی خان پولیس !

پیر 2 دسمبر 2019

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

ایک پُرانی کہاوت ہے کہ پولیس کی نہ دوستی اچھی اور نہ دشمنی۔ ماضی میں تبدیلی کے نعرے سُن کر ایک وقت تو ایسا لگا کہ اور کچھ نہیں، کم ازکم تبدیلی کے آنے اور نیا پاکستان بن جانے سے پولیس کی دوستی یا دشمنی دونوں میں سے ایک چیز تو ضرور اچھی ہو ہی جائے گی،لیکن ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھرہماری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ایک ہم ہیں جو ہمیشہ ہر نئی چیز کے متعلق خوش فہمیاں پال لیتے ہیں اور اس کا پرچار شروع کردیتے ہیں کہ بس اب تبدیلی آئے گی،اب تبدیلی آ گئی ہے،لیکن ہر دفعہ کی طرح آخر میں منہ کی کھا بیٹھتے ہیں۔

اس قدر لمبی چوڑی تمہید کے بعد تبدیلی سرکار اور معزز و محترم وسیم اکرم پلس وزیر اعلیٰ کے آبائی حلقے اور ضلع کی پولیس کی کچھ بات کرتے ہیں۔
ضلع ڈیرہ غازیخان سے وزیر اعلیٰ کے منتخب ہونے کے بعد ہمیں اس قدر امید تھی کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم ڈیرہ غازیخان کی پولیس کا قبلہ ضرور درست کیا جائے گا اور پولیس میں میرٹ کی بالا دستی ضرور قائم ہو گی لیکن ہمیشہ کی طرح اس کے برعکس کام ہوا۔

(جاری ہے)

پولیس کا رویہ عوام سے مزید جارحانہ ہو گیا۔امن و امان کی صورتحال بھی مزید ابتر ہوگئی۔عوام اور پولیس کے درمیان فاصلہ بھی مزید بڑھتا چلا گیا۔پولیس اہلکاروں کی اپنی ہی جانیں تک غیر محفوظ ہو گئی ۔اس قدر ابتر صورتحال کے پیش نظر کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے موجودہ PSOعاطف نذیر صاحب کو ڈی پی او ڈیرہ غازیخان تعینات کیا گیا ۔عاطف نذیر صاحب نے آتے ہی پولیس میں سوشل میڈ یا کلچر کو سرکاری طور پر متعارف کروایا۔

سوشل میڈ یا پر نام کمانے اورافسروں کی نظر میں آنے کے لیے اہلکاروں نے بھی ڈرامے بازی کر کے خوب نام کمانے کے طریقے ڈھونڈ لیے ۔دھڑا دھڑ کسی بھی الزام میں گرفتار ہونے والے شخص کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنے لگی۔نیکی کاکام کرنے سے پہلے بھی تصویر بنوانا لازمی ٹہرا۔
ڈی پی او عاطف نذیر صاحب کے دور میں پولیس میں سیاسی مداخلت عروج پر پہنچ گئی اور ڈیرہ غازیخان پولیس کی تاریخ میں پہلی بار نئے بھرتی ہونے والے TSI(ٹرینی سب انسپکٹرز)کو تھانوں کا SHOلگانے کی داغ بیل ڈالی گئی ۔

ایک طرف پر زور انداز میں میرٹ ،میرٹ کا ڈھونگ رچایا گیا اور دوسری طرف پولیس رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ضلع کے 90فیصد تھانوں میں جونئیر آفیسران اور TSI(ٹرینی سب انسپکٹرز) کو تھانوں کا ایس ایچ او بنادیا گیا۔
ان سب اقدامات کے باوجود بھی امن و امان کی صورتحال کچھ خاص بہتر نہ ہوئی ۔پھر اچانک ہی ڈی پی او عاطف نذیر کا تبادلہ ہوگیا۔ڈی پی او عاطف نذیر کے بعد آنے والے موجودہ ڈی پی او اسد سرفراز صاحب نے بھی سابق ڈی پی او کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سے TSIاور جونئیر آفیسران کو ایس ایچ او تعینات کیا اور ایک مرتبہ پھر سے سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی۔

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے اعتراف کے باوجود کہ پنجاب پولیس میں SHOکی تعیناتی کے لیے سفارش کا استعمال ہوتا ہے ،اس کے سدِباب اور ملازمان کو ذہنی کوفت سے بچانے کے آخر کوئی میرٹ کیوں نہیں مقرر کیا جاتا ہے۔
حکومتی وزیروں کی طرف سے روز یہ رونا رویا جاتا ہے کہ بیوروکریٹ حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کررہے۔

انتظامیہ درست طریقے سے کام انجام نہیں دیتی ۔کبھی چیف سیکرٹری کوتبدیل کردیا جاتا ہے تو کبھی آئی جی پولیس کو ۔حکومت مسائل کو نچلی سطح پر حل کرنے کی بجائے بالائی طبقہ کو تبدیل کرکے یہ سمجھتی ہے کہ بس اب مسئلہ حل ہو جائے گا۔ان دنوں پورے پاکستان سمیت پنجاب میں میرٹ کی جو دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اگر ایسا ہی چلتا رہا تو حکومت چاہے جتنے وزیر،جتنے چیف سیکرٹری، جتنے آئی جی بدل ڈالے نتیجہ پھر بھی نہیں بدل سکتا۔

الیکشن سے قبل کپتان کا ہی نعرہ تھا کہ چہرے نہیں نظام بدلے جائیں لیکن حسب روایت کپتان اور ان کی ٹیم ایک مرتبہ پھر سے نظام کی بجائے چہرے بدلنے میں مصروف ہے۔اس سڑے ہوئے نظام کے سبب آج بھی لادی گینگ ڈیرہ غازیخان کے مضافات میں خوف کی علامت بنی ہوئی ہے،سینکڑوں افراد ان کے ہاتھوں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔جعلی پولیس مقابلے شروع ہو چکے ہیں۔

پولیس گردی اپنے عروج پر ہے۔میرٹ کا خون ہو چکا ہے ۔اگر اس قدر سنگین حالات میں بھی فیصلہ سازوں اور انتظامیہ نے اپنی آنکھیں نہ کھولی تو وہ دن دور نہیں ہونگے جب اس نا انصافی،تشدد اور ظلم کے خلاف عوام کے ساتھ ساتھ خود پولیس فورس کے جوان بھی سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہونگے۔ پولیس فور س کے جوان بھی ہم میں سے ہیں ،وہ بھی انسان ہیں،ہمارے محافظ ہیں ،ہمارا فخر ہیں،ان کے بھی حقوق ہیں،میرٹ پر تقرری ان کا بھی حق ہے۔

خالی اور خیالی تقاریر کرنے کی بجائے عوام پوکولیس کے ہاتھوں میرٹ دلوانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے پولیس کو میرٹ فراہم کیا جائے ۔بقول حبیب جالب#
 سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
 علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں
 بہ ہر عالم خدا کا شکر کیجئے اُن کا کہنا ہے 
 خطا کرتے ہیں ہم ، جو شکوہ تقدیر کرتے ہیں 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Urdu Column Wah, Wah Dera Ghazi Khan Police ! Column By Ahmad Khan Lound, the column was published on 02 December 2019. Ahmad Khan Lound has written 21 columns on Urdu Point. Read all columns written by Ahmad Khan Lound on the site, related to politics, social issues and international affairs with in depth analysis and research.

ڈیرہ غازی خان کے مزید کالمز :