چترال میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد

پیر 6 نومبر 2017 14:15

چترال۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 نومبر2017ء)شندور ویلفیئرآرگنائزیشن اور ضلعی حکومت مستوج چترال کی جانب سے چترال کے بالائی علاقے بونی میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان کی روک تھام کیلئے تدابیر کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار منعقد ہوا۔ اس موقع پر یونیورسٹی آف چترال کے وائس چانسلر (پراجیکٹ ڈائریکٹر) پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری مہمان حصوصی تھے جبکہ تقریب کی صدارت تحصیل ناظم مستوج مولانا محمد یوسف نے کی۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ چترال میں دیگر جرائم نہایت کم ہیں مگر خودکشی کا رحجان بہت زیادہ ہے اور یہ شرح مردوں کے مقابلے میں خواتین میں کئی گنا زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خودکشی اسلام میں حرام ہے کیونکہ یہ زندگی اور جسم اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔

(جاری ہے)

مقررین نے کہا کہ چترال میں ہر سال دس سے پندرہ خواتین دریائے چترال میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرتی ہیں اور چند سال قبل تو ہر سال تیس سے بتیس خواتین خودکشیاں کرتی تھیں۔

انہوںنے کہا کہ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ایک تو دین اور اسلامی تعلیمات سے دوری اور دوسرا والدین کا غیر مناسب رویہ۔ اس کی وجہ غربت بھی ہوسکتی ہے مگر زیادہ تر یہ نفسیاتی مسئلہ ہے اور بدقسمتی سے پورے چترال میں کوئی ماہر نفسیات نہیں ہے۔ اور نہ ان بے سہارا یا مایوس خواتین کیلئے کوئی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ سکول پرنسپل امینہ نگار کا کہنا تھا کہ چترال کی خواتین نہایت مایوسی کے شکار ہیں ایک تو معاشرتی مسائل اور وسائل کی کمی کی وجہ سے ہے ہم اپنے بچوں کو وہ چیزیں نہیں مہیا کرسکتے جو وہ چاہتے ہیں مگر ہمارے وسائل نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ بچیاں مایوس ہوکر خودکشی کرتی ہیں۔

دوسری وجہ ان کو بے جا آزادی دینا بھی ہے بچوں کو تھوڑا کنٹرول رکھنا چاہئے۔ سیمنار سے مولانا دینار شاہ، مولانا امیر نواز، الواعظ سلطان نگاہ، سابق ڈی ایچ او ڈاکٹر شیر قیوم، قاری امتیاز الرحمان، عنایت اللہ اسیر، ناصر علی شاہ، عنایت اللہ، سب ڈویژنل پولیس آفیسر محمد زمان، رکن تحصیل کونسل سردار حکیم، سینیر صحافی محکم الدین، ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری اور مولانا محمد یوسف نے خطاب کیا۔ بعد میں ادارے کی جانب سے محکم الدین، سیف الرحمان عزیز، گل حماد فاروقی اور دیگر حضرات جنہوںنے خودکشی کی روک تھام پر کام کیا ہے کو شیلڈز بھی پیش کی گئیں۔

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں