جنوبی ایشیاء میں پانی پر جنگ کے سب سے زیادہ امکانات ہیں

بھارت کی آبی جارحیت کی وجہ سے پاکستان کو اس کے حصے کا پانی نہیں مل رہا،بھارت کے صرف پاکستان ہی نہیں نیپال، بنگلہ دیش اور چین سے بھی پانی کے تنازعات ہیں،سندھ طاس معاہدہ کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے سابق سربراہ آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد ظہیر الاسلام، چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین اور دیگر مقررین کا بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب

پیر 10 دسمبر 2018 19:07

جنوبی ایشیاء میں پانی پر جنگ کے سب سے زیادہ امکانات ہیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 دسمبر2018ء) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ و چیئرمین سنٹر فار گلوبل اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد ظہیر الاسلام نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پانی پر جنگ کے سب سے زیادہ امکانات ہیں، بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کی وجہ سے پاکستان کو اس کے حصے کا پانی نہیں مل رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں سنٹر فار گلوبل اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز کے زیر اہتمام ’’پانی، برصغیر میں مستقبل میں جنگ اور امن‘‘ کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ ماہرین کا خیال ہے اگر تیسری عالمی جنگ ہوئی تو وہ پانی پر ہو گی، بھارت کے صرف پاکستان ہی نہیں نیپال، بنگلہ دیش اور چین سے بھی پانی کے تنازعات ہیں، سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے حقوق کا دفاع نہیں کر پا رہا ہے، اس معاہدہ کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے کہا کہ جب پاکستان بنا تھا تو آبادی صرف 3 کروڑ تھی جو اب 20 کروڑ 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فی کس سالانہ 3000 کیوبک واٹر دستیاب ہے، پاکستان کا شمار اب پانی کی کمی کے شکار ممالک میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آبادی کنٹرول کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ چیئرمین فورٹ، انٹیگریٹڈ واٹر ریسورسز مینجمنٹ ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ ہم نے پائیدار ترقیاتی اہداف کے کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں، مستقبل کے منصوبے اس تناظر میں بننے چاہئیں۔

سابق چیئرمین پلاننگ کمیشن، پن بجلی و متبادل توانائی ورکنگ گروپ امتیاز علی قریشی نے کہا کہ پانی کی کمی سے پنجاب زیادہ متاثر ہو رہا ہے، حکومت کو سنجیدگی سے پانی کے منصوبوں پر کام کرنا چاہئے، مؤثر واٹر مینجمنٹ کیلئے 19 چھوٹے ڈیم بننے چاہیئں۔ بحریہ یونیورسٹی کے ہیومینٹیز اور سوشل سائنسز کے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر اظہر احمد نے کہا کہ اقتصادی تعاون تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 2030ء تک بین الاقوامی آبادی کا 47 فیصد حصہ شدید ماحولیاتی بحران کا شکار ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ امن اور جنگ کا حل پیش کرنا دانشوروں کی ذمہ داری ہے، پانی سے جنگ کی بجائے امن کو فروغ ملا ہے۔ سری لنکا کی بحریہ کے سابق کمانڈر ایڈمرل ڈاکٹر جیوا ناتھ کولمبیج نے کہا کہ کسی ایک ملک کیلئے عدم تحفظ دوسرے ملکوں کیلئے بھی عدم تحفظ ہو گا اور اس سے اسلحہ کی دوڑ شروع ہو گی، اس لئے جنوبی ایشیاء میں سفارتی اور سٹرٹیجک شعبوں میں اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔

سابق چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ وائس ایڈمرل احمد تسنیم نے کہا کہ ہمیں نوجوانوں میں تعلیمی اداروں کے ذریعے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، ذرائع ابلاغ کو پانی سے متعلق خصوصی پروگرام نشر کرنے چاہئیں اور ہمیں اس حوالہ سے حقیقی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کے شعبہ ماحولیاتی سائنس سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر عادل رشید نے کہا کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پانچواں بڑا ملک اور موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی نہیں ہے تاہم پانی کو ذخیرہ کرنے میں بدانتظامی ہوتی ہے۔ پاکستان میں تاجکستان کے سفیر جونوف شیر علی نے کہا کہ ہم قدرتی وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں، تاجکستان میں پانی کے ذخائر اور پن بجلی کی وسیع صلاحیت موجود ہے، پانی تاجکستان کا سٹرٹیجک وسیلہ ہے اور معاشی ترقی اور قومی سلامتی کی بنیاد اسی پر مبنی ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں