سپریم کورٹ کا5 ہزار روپے سے زائد فیس لینے والے نجی اسکولوں کو فیس میں 20 فیصد کمی کرنے اور 2 ماہ کی چھٹیوں کی فیس کا 50 فیصد والدین کو واپس کرنے کا حکم

عدالت ہائی کورٹس کے فیصلوں کی پابند نہیں، آگاہ کیا جائے فیس میں خاطر خواہ کمی کیسے ہو گی عدالت خود فیصلہ کرے گی کہ فیس میں مناسب کمی کتنی ہو گی ،ْ چیف جسٹس �صد ہر سال بڑھائی جائے تو 4 سالوں میں 32 فیصد فیس بڑھ گئی ،ْ اسکولوں نے اپنی آڈٹ رپورٹس میں غلط اعداد دیئے ،ْ جسٹس اعجاز الاحسن

جمعرات 13 دسمبر 2018 15:49

سپریم کورٹ کا5 ہزار روپے سے زائد فیس لینے والے نجی اسکولوں کو فیس میں 20 فیصد کمی کرنے اور 2 ماہ کی چھٹیوں کی فیس کا 50 فیصد والدین کو واپس کرنے کا حکم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 دسمبر2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے 5 ہزار روپے سے زائد فیس لینے والے نجی اسکولوں کو فیس میں 20 فیصد کمی کرنے اور 2 ماہ کی چھٹیوں کی فیس کا 50 فیصد والدین کو واپس کرنے کا حکم دیدیا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدالت ہائی کورٹس کے فیصلوں کی پابند نہیں، آگاہ کیا جائے فیس میں خاطر خواہ کمی کیسے ہو گی عدالت خود فیصلہ کرے گی کہ فیس میں مناسب کمی کتنی ہو گی۔

جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نجی اسکولوں کی زائد فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت کی اس سلسلے میں نجی اسکولوں کے وکیل، ڈپٹی آڈیٹر جنرل اور چیئرمین ایف بی آر عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ہائی کورٹس کے فیصلوں کی پابند نہیں، آگاہ کیا جائے فیس میں خاطر خواہ کمی کیسے ہو گی،عدالت خود فیصلہ کرے گی کہ فیس میں مناسب کمی کتنی ہو گی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر بیکن ہاؤس کے وکیل نے کہا کہ ہر اسکول کی فیس اور سالانہ اضافہ مختلف ہے، پنجاب کے سابق وزیر تعلیم نے سالانہ 10 فیصد اضافے کا قانون بنانے کا کہا اور رانا مشہود اسمبلی سے صرف 8 فیصد کی منظوری لے سکے اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے سابق وزیر تعلیم کا اپنا بھی کوئی اسکول ہو گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک ایک کمرے کے اسکول سے اتنا اتنا پیسہ بنایا، اب یہ صنعت کار بن گئے ہیں۔

دورانِ سماعت نجی اسکول کی وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ تمام اسکول 8 فیصد فیس کم کرنے کو تیار ہیں اس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ 8 فیصد تو اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ 20 سال کا آڈٹ کرایا تو نتائج بہت مختلف ہوں گے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اسکولوں نے اپنی آڈٹ رپورٹس میں غلط اعداد دیے۔بیکن ہاؤس کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بیکن ہاؤس نے 764 ملین ٹیکس دیا ہے، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے بہت ٹیکس دیا ہوگا لیکن اس کا طالب علم کو کوئی فائدہ نہیں، اس کا فائدہ تو تب ہو گا جب فیس کم ہو گی۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ 8 فیصد ہر سال بڑھائی جائے تو 4 سالوں میں 32 فیصد فیس بڑھ گئی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ایک اسکول سے آپ ڈھائی سو اسکول کے مالک بن گئے، والدین مجبور ہیں کہ فیل کرنے میں پرائیویٹ اسکولوں کا ہاتھ ہے، ایک ایک اسکول سے کئی سو اسکول بنائے گئے، سب طالب علموں سے پیسے نکالے گئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے چیئرمین ایف بی آر کو عدالت میں طلب کرکے حکم دیا کہ ایف بی آر ان اسکولوں کا پچھلے سات سالوں کا ٹیکس ریکارڈ چیک کرے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے نجی اسکول کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں کی کمی پوری کررہے ہیں، دراصل آپ نے اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عبوری حکم دیا کہ ملک بھر کے ایسے نجی اسکول جو 5 ہزار روپے سے زائد فیس وصول کرتے ہیں وہ اپنی فیسوں میں 20 فیصد تک کمی کریں گے ،ْ 5 ہزار یا اس سے کم فیس وصول کرنے والے اسکولوں پر عدالتی فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔

عدالت نے حکم دیا کہ 5 ہزار روپے سے زائد فیس لینے والے نجی اسکول سالانہ 5 فیصد سے زیادہ فیسوں میں اضافہ نہیں کریں گے اور اگر اس سے زیادہ اضافہ کرنا ہوگا تو ریگولیٹری باڈی سے منظوری لینا ہوگا اور وہ بھی 8 فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں ہوگا۔سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ ایسے نجی اسکول گرمیوں کی فیسوں کا 50 فیصد والدین کو ادا کریں یا اس رقم کو اسکول کی فیس میں ایڈجسٹ کریں۔عدالت نے ایف بی آر کو نجی اسکولز مالکان اور ڈائریکٹرز کے انکم ٹیکس گوشواروں کی چھان بین کا بھی حکم دے دیا۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 26 دسمبر تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں