پلی بارگین سزا تصور ہوتی ہے، ملزم اقبال جرم کرتا ہے اور لوٹی ہوئی دولت واپس کرتا ہے،چیئرمین نیب

ہفتہ 22 فروری 2020 23:35

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 فروری2020ء) بدعنوانی ملک کو درپیش ایک بڑا چیلنج رہا ہے جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہی ہے، قومی احتساب بیورو کا قیام 1999ء میں بدعنوانی کے خاتمہ اور بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی دولت وصول کر کے قومی خزانہ میں جمع کرانے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا۔ قومی احتساب بیورو کے موجودہ چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے ذمہ داریاں سنبھالنے کے فوراً بعد پاکستان کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے اقدام کو نیب کا یقین بناتے ہوئے انسداد بدعنوانی کی ایک موثر قومی حکمت عملی اختیار کی۔

اس پالیسی کے تحت 500 سے زائد بدعنوان عناصر کو حراست میں لینے کے علاوہ 178 ارب روپے کی رقوم وصول کیں۔ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نہ صرف احتساب سب کیلئے کو یقینی بنا رہے ہیں بلکہ بلاتفریق اس پالیسی پر کامیابی سے عمل درآمد بھی کرا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

چیئرمین نیب بھرپور توجہ دیتے ہوئے نیب ہیڈکوارٹرز اور تمام علاقائی بیوروز کی کارکردگی کی ہفتہ وار، 15 روزہ اور ماہانہ کارکردگی کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔

نیب افسران کو ان کی خوبیوں اور خامیوں سے باقاعدگی کے ساتھ آگاہ کیا جا رہا ہے تاکہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ قومی احتساب بیورو پہلے ہی شکایات کی تصدیق ، انکوائری اور تفتیش سے لے کر ریفرنس دائر کرنے تک کے عمل کیلئے 10 ماہ کی مدت مقرر کر چکا ہے۔ قومی احتساب بیورو نے نئے تفتیشی افسران اور لاء افسران کے تقرر کے ساتھ استغاثہ کے عمل کو مزید بہتر بنایا ہے اور ان افسران کو جدید خطوط پر تربیت فراہم کی گئی ہے تاکہ تمام میگا کیسز کی انکوائری میں انہیں مدد مل سکے اور متعلقہ عدالتوں میں وائٹ کالر کرائم سمیت خورد برد کے تمام مقدمات کو موثر طریقہ سے پیروی کیا جا سکے، کوئی بھی ملزم نیب آرڈیننس کی شق 25 B کے تحت پلی بارگین کیلئے درخواست دے سکتا ہے، نیب پلی بارگین کی درخواست پر جس میں ملزم یا ملزمہ نے اعتراف کیا ہو، کا معائنہ کر کے قانون کے مطابق اس درخواست کا جائزہ لیتی ہے۔

لوٹی ہوئی دولت اور ملزم کے ذمہ واجبات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس درخواست پر غور کیا جاتا ہے اور نیب ملزم کو پلی بارگین کے تحت واجبات سے آگاہ کرتا ہے جو اس نے لوٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔اور اگر ملزم پلی بارگین کے تحت لوٹے ہوئی رقم واپس کرنے پر آمادہ ہو جائے تو اسے جب سے اس نے لوٹ مار شروع کی ہے اس وقت تک کے واجبات کی پہلی قسط نیب کو ادا کرتا ہے جو قومی خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے ۔

نیب پلی بارگین کی درخواست کے ہمراہ ملزم کو اس کے مجموعی واجبات کی حتمی منظوری کے لئے متعلقہ احتساب عدالت میں پیش کیا جاتا ہے ۔ متعلقہ احتساب عدالت ریکارڈ کی چھان بین کے بعد ملزم کی پلی بارگین کی حتمی منظوری کی اجازت دیتی ہے۔ پری بارگین کی منظوری کے بعد ملزم کی درخواست کو احتساب عدالت سے سزا یافتہ پلی بارگین ملزم تصور کیا جاتا ہے ۔

پلی بارگین کے بعد سرکاری ملازم کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے اور اسے پوری زندگی کے لئے کسی بھی سرکاری عہدے کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ سیاستدان کو دس سال کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے اور دس سال تک ایسا ملزم سیاستدان نہ کوئی سرکاری عہدہ رکھ سکتا ہے اور نہ ہی الیکشن میں حصہ لے سکاتا ہے۔ کاروباری شخص ہونے کی صورت میں پلی بارگین کے بعد ایسا شخص دس سال تک کسی بھی شیڈول بینک سے قرضہ حاصل نہیں کر سکتا ۔

پلی بارگین کے تحت وصولی کی جانے والی رقوم قومی خزانے میں جمع کرائی جاتی ہیں اور نیب افسران کو وصول شدہ رقم کا کوئی حصہ نہیں دیا جاتا۔ پلی بارگین کا قانون امریکہ ، متحدہ عرب امارات سمیت دینا کے تیس سے زائد ممالک میں رائج ہے۔ پلی بارگین کی صورت میں ملزم صرف جیل نہیں جاتا جبکہ متعلقہ قوانین کے تحت اسے مجرم کو ملنے والی تمام سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قومی احتساب بیورو کے موجودہ چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی مدت کے دوران نیب کی کارکردگی قابل تعریف رہی ہے اورٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ، ورلڈ اکنامک فورم ، پلڈاٹ اور مشعل پاکستان جیسے مایہ ناز قومی اور بین الاقوامی اداروں نے نیب کی کارکردگی کی تعریف کی ہے ۔ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین اور ان کی ٹیم بدعنوانی کے خاتمے کو قومی فریضے کے طور پر سر انجام دے رہے ہیں ۔ بدعنوانی کا خاتمہ پوری قوم کی اجتماعی زمہ داری ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں