وزارت خزانہ کی ناقص مینجمنٹ کے باعث 411 ارب روپے کے فنڈز استعمال نہ ہو سکے، آڈٹ حکام

سے 20 ادارے ابھی بھی آڈٹ کرانے سے گریز کر رہے ہیں، آڈیٹر جنرل کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بریفنگ

جمعرات 20 فروری 2020 00:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 فروری2020ء) پبلک اکائونٹس کمیٹی کو آڈٹ حکام نے بتایا ہے کہ وزارت خزانہ کی ناقص مینجمنٹ کے باعث 411 ارب روپے کے فنڈز استعمال نہ ہو سکے۔بد ھ کو رانا تنویر کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کااجلاس ہوا ۔اجلاس میں وزارت خزانہ کے بجٹ اور اخراجات پر آڈٹ حکام نے بریفنگ دی ۔ بریفنگ میں بتایاگیاکہ گزشتہ مالی سال کے دوران 3600ارب روپے کے اضافی اخراجات ہوئے۔

بتایاگیاکہ اضافی اخراجات میں سے 3400 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کیے گئے ۔بریفنگ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران وزارت خزانہ نی10 ہزار ارب روپے کی ضمنی گرانٹس جاری کیں ۔ بتایاگیاکہ نو ہزار ارب روپے کی ضمنی گرانٹس کی منظوری نہیں لی گئی ۔ سیکرٹری خزانہ نے بتایاکہ وزارت خزانہ نے رواں مالی سال اب تک کسی وزارت کو ضمنی گرانٹ جاری نہیں کی ۔

(جاری ہے)

آڈٹ حکام نے بتایاکہ وزارت خزانہ کی ناقص منیجمنٹ کے باعث 411 ارب روپے کے فنڈز استعمال نہ ہو سکے ،موجود فنڈز خرچ نہیں کئے گئے دوسری جانب اربوں روپے کا ضمنی بجٹ بھی جاری کیا گیا ۔آڈٹ حکام کے مطابق صاف پانی کی فراہمی کیلئے 12 ارب روپے کا بجٹ مختص ہوا لیکن ایک روپیہ بھی جاری نہیں ہوا ۔بتایاگیاکہ گزشتہ سال قرضوں اور سود کی ادائیگی پر 89 فیصد بجٹ خرچ کیا گیا ،دفاع کا بجٹ 3 اعشاریہ 2 فیصد تھا تعلیم پر 0.40 فیصد صحت پر 0.11 فیصد خرچ کیا گیا ،گزشتہ مالی سال کے دوران 4 ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا ہوا ،جس میں سے 2 ہزار 157 ارب روپے صوبوں کو جاری کئے گئے۔

خواجہ آصف نے کہاکہ ملک میں جو سرمایہ کاری آرہی ہے کون اور کیوں بھیج رہا ہے ،جو سرمایہ کاری آرہی ہے وہ کاروبار کی وجہ سے نہیں زیادہ شرح سود کی وجہ سے آرہی ہے ،کل اگر شرح سود کم ہوئی تو یہ رقم نکل نہیں جائے گی ۔ انہوںنے کہاکہ اتنی زیادہ شرح سود پر تو ہیروئن کا کاروبار ہی کیا جاسکتا ہے ۔ سیکرٹری خزانہ نے جواب دیاکہ گورنر سٹیٹ بینک ہی بتاسکتے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ بہتر ہوگا چیئرمین ایف بی آر اور گورنر سٹیٹ بینک کو ایک ساتھ بلاکر پوچھ لیا جائے ۔ چیئر مین پی اے سی رانا تنویر حسین نے کہاکہ اگلے اجلاس میں گورنر سٹیٹ بینک کو بلا لیتے ہیں چیئرمین ۔ سیکرٹری خزانہ نے کہاکہ جنوری میں مہنگائی 14.4فیصد تھی ،یہ تو بہت زیادہ مہنگائی کی شرح ہے ۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان جاوید جہانگیر نے پی اے سی کو بریفننگ دیتے ہوئے کہاکہ آڈیٹر جنرل آفس کا ہمارے سسٹم سے باہر آڈٹ ہوگا،سرکاری کارپوریٹ سیکٹر میں سے کچھ اداروں نے آڈٹ کرانے سے انکار کیا، 18 ویں ترمیم کے تحت آڈیٹر جنرل کے مینڈیٹ میں اضافہ کیا گیا۔

آڈیٹر جنرل کے مطابق ہمیں وفاقی اور صوبائی اداروں کے آڈٹ کا آئینی اختیار دیا گیا، سپریم کورٹ نے بھی ہمارے اختیارات کو مضبوط کیا، پاکستان انجینئرنگ کونسل سمیت بعض ادارے چارٹرڈ اکاونٹنٹس سے آڈٹ کراتے ہیں۔آڈیٹر جنرل نے کہاکہ 15 سے 20 ادارے ابھی بھی آڈٹ کرانے سے گریز کر رہے ہیں ،ایس ای سی پی، نادرہ، اسلام آباد گن کلب، پی ایم ڈی سی سمیت کئی اداروں نے مذاحمت کی، ایکٹ آف پارلیمنٹ سے قائم ہونے والے ادارے بھی سرکاری آڈٹ سے انکاری ہیں۔انہوںنے کہاکہ بعض اداروں کا خیال ہے کہ وہ حکومت سے فنڈز نہیں لیتے، خود مختار ہیں، انجینئرنگ کونسل وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا زیلی ادارہ ہے، سپریم کورٹ بھی تمام سرکاری اداروں کے آڈٹ کی ہدایت کر چکی ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں