ْآئی ایم ایف کا کمرشل بینکوں میں سرکاری اکائونٹس بندکرنے کا مطالبہ درست ہے،میاں زاہد حسین

عالمی ادارے کی ڈیمانڈ کڑوی نہیں بلکہ میٹھی گولی ہے، قوانین کی خلاف ورزی میں ہزاروں اکائونٹس چلائے جا رہے ہیں،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

پیر 25 اکتوبر 2021 16:59

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 اکتوبر2021ء) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کمرشل بینکوں میں سرکاری اداروں کے اکائونٹس بند کرکے انھیں مرکزی بینک میں منتقل کرنے کا مطالبہ جائز اور ملکی مفاد میں ہے جسے مان لینا چائیے جس سے حکومت کو اربوں روپے کی بچت ہو گی۔

یہ عالمی ادارے کی کڑوی گولی نہیں بلکہ میٹھی گولی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اداروں نے ملکی قوانین اور وزارت خزانہ کی ہدایات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمرشل بینکوں میں پانچ ہزارسے زیادہ اکائونٹس کھلوارکھے ہیں جس میں کئی سو ارب روپے موجود ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں متعدد قباحتیں ہیں جس وجہ سے اسکاخاتمہ ضروری ہے اس لئے آئی ایم ایف کے مطالبے کو تسلیم کیا جائے۔

کمرشل بینکوں کے مابین سرکاری اداروں کے فنڈز حاصل کرنے کے لئے مسابقت رہتی ہے جس میں کرپشن کا امکان ہوتا ہے ۔ کمرشل بینک سرکاری اداروں کو انکے ڈیپازٹ پر چار فیصد تک سود ادا کرتے ہیں اور اسی سرکاری رقم کو حکومت کو قرض کی مد میں دے کر دس فیصد تک سود وصول کرتے ہیںجس سے حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ کئی اداروں کے ارباب اختیار سود کمانے کے لئے سرکاری فنڈر کو ذاتی اکائونٹس میں جمع کروا دیتے ہیں جبکہ کئی ادارے سود کمانے کے لئے منصوبوں کو تاخیر کا شکار کر دیتے ہیں۔

بعض ادارے تو سرکاری فنڈ کی مدت ختم ہونے سے قبل اسے نجی پارٹیوں کے اکائونٹ میں منتقل کر دیتے ہیں اور بعد ازاں دوبارہ وصول کر لیتے ہیں اس لئے اس سلسلہ کا جو ایک کاروبار بن چکا ہے کا خاتمہ ضروری ہے۔میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض کی کڑوی گولی اسی وقت لیتی ہیں جب معیشت کے حالت بہت زیادہ خراب ہو چکی ہو۔ معاشی حالت کی خرابی ایک حد تک تو برداشت کر لی جاتی ہے لیکن جب معاملات معاشی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہوں تو حکمران اس خرابی کو روکنے کی کوشش میں کشکول اٹھا لیتے ہیں۔

آئی ایم ایف کے ماہرین قرض لینے والے ممالک کو جو شرائط بتاتے ہیں اس میں فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے جو معاشی عدم استحکام کو جس میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور اخراجات وغیرہ شامل ہے ختم کیا جا سکے تاہم اس سے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میںآئی ایم ایف سے معاہدے کے باوجود ان شرائط پرمکمل عمل درامد نہیں کیا جاتا ہے جس سے معاشی حالت خراب اور عالمی ادارے کی شرائط مزید سخت ہو جاتی ہیں جس کا سارا ملبہ عوام پر ہی گرتا ہے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں