پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، طبی ماہرین

اگر شوگر پر قابو نہیں پایا گیا تو پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر سے بڑھ کر تیسرے نمبر پر آجائے گا

اتوار 23 فروری 2020 21:21

پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، طبی ماہرین
/کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 فروری2020ء) طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر سے بڑھ کر تیسرے نمبر پر آجائے گا، آنے والی نسل کو اس مرض سے بچانے کی ضرورت ہے، بچوں کو رات کے وقت کمپیوٹر کے استعمال کرنے سے روکا جائے، فارسٹ فوڈ (Hydro Carbon) کوئلے پر تیار ہونے والی اشیاء سے کینسر کے مرض میں اضافہ ہورہا ہے، معیاری متوازن غذا کا استعمال اور موسمی پھل کو کم کیا جاسکتا ہے۔

روزانہ 30 منٹ کی واک ضرور کریں، ذہنی تنائو کو کم سے کم کرنے کے لئے ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی عادت کو اپنانا چاہئے، ان خیالات کا اظہار طبی ماہرین نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے اوجھا کیمپس میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈایابیٹس اینڈ انڈوکرائنالوجی میں عوامی آگہی سیمینار ''رمضان کے دوران محفوظ روزہ''سے متعلق خطاب کے دوران کیا، اس موقع پر پرو وائس چانسلر پروفیسر کرتار ڈاوانی، رجسٹرار پروفیسر امان اللہ عباسی، نائیڈ کے سربراہ پروفیسر اخترعلی بلوچ، ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر عمر خان، اسسٹنٹ پروفیسر زرین کرن، اسسٹنٹ پروفیسر ایس محمد حسن، ڈاکٹر تہمینہ راشد، ڈاکٹر فرید الدین و دیگر بھی موجود تھے، ممتاز صنعتکار اور سماجی شخصیت سردار یاسین ملک نے کہاہے کہ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی بڑھتی تعداد کے لحاظ سے اسپتالوں کی گنجائش کم ہو رہی ہے، فوری احتیاطی اقدامات میں تیزی نہ لائی گئی تو آئندہ چند برسوں میں پاکستان شوگر کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے اپنے چوتھے نمبر سے آگے بڑھ کر تیسرے نمبر پر آجائے گا، امریکا کے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کئے گئے احتیاطی اقدامات نے وہاں شوگر کی بڑھتی تعداد کو کم کردیا، اگلے برسوں امریکا تیسرے سے چوتھے نمبر پر ہوگا، ہم اسکی اور وہ ہماری جگہ لے گا، یہ اعداد و شمار ہم سب کے لیے تشویش ناک ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ روزہ ہرمذہب میں اپنے انداز اختیار کیا جاتا ہے، جس کا مقصد تقوی حاصل کرنے کے ہیں، اس سے جسمانی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں، پاکستان کے لوگ روزہ خاص اہتمام سے رکھتے ہیں، انہو ں نے ڈاؤ یونیورسٹی کے ادارے نائیڈ میں ذیابیطس کے مریضوں کو دی جانے والی سہولیات کی تعریف کی،، انہو ں نے کہا کہ ذیابیطس کی بیماری اگر پیچیدہ ہوجائے تو آنکھ، گردے کے ساتھ جسم کے دوسرے اعضاء کو بری طرح متاثر کرتی ہے، کبھی کبھی پیچیدگی کی باعث پاؤں تک کاٹنے کی نوبت آجاتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ اعداد و شمار سے لگتا ہے کہ ذیابیطس کامرض وبا کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، اس وقت پاکستان میں مریضوں کی تعداد 4کروڑ 25 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، اس سے بچاؤ کے لیے ہمیں متوازن غذا اور ورزش کو معمول بنانا ہوگا، اس موقع پر انہو ں نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈایابیٹس اینڈ انڈو کرائنالوجی کی عمارت میں توسیع کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ دہ شوگر کے مریضوں کے پاؤں کی صورتحال کا تجزیہ کرنے والی ایک نئی مشین ''pedograph''دینے کا بھی اعلان کیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاؤ یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر امان اللہ عباسی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے اسلام نے جو اصول متعین کردئیے،آج وہی طبی سائنس نے دریافت کئے ہیں اور مزید کرتی جا رہی ہے، جسم اور روح کے درمیان توازن رکھنے کے لیے کھانے پینے کے عادات و اطوار مثبت ہونگے تو روح اور جسم کے مابین توازن رہے گا، اس کے لیے نماز، روزہ زکو ة اور دیگر فرائض کی ادائیگی سے روح اور جسم کے مابین توازن قائم رہتا ہے اور بیماریاں دور ہوجاتی ہیں، اسلام کے دائرے میں توازن ہے، عدم توازن سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، پروفیسر اختر علی بلوچ نے کہا کہ ''نائیڈ ''صرف مریضوں کو علاج کی سہولت نہیں دے رہا بلکہ اعلی طبی تعلیم و تحقیق کے لیے پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے، 80سے زائد ریسرچر یہا ں سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں، کالج آف فزیشن نے بھی اسے پوسٹ گریجویشن اسٹڈیز کیلیے منظور کیا ہوا ہے۔

ڈاکٹر عمر خان نے کہا کہ دنیا بھر میں شوگر کے مرض میں مبتلا افراد میں سے 30فیصد مسلمان ہیں اور ان میں اکثر لوگ روزے رکھتے ہیں، اسلیے ضرورت اس بات کی ہے کہ روزے میں خود کو اور اس عبادت کو محفوظ رکھنے کے طریقوں پر عمل کیا جائے، اس ضمن میں علما سے بھی مشاورت کی گئی ہے، ان کا اکہنا ہے کہ جان کو خطرہ ہوتو روزہ کسی وقت بھی کھولا جاسکتا ہے،تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر زرین کرن نے کہا کہ دنیا میں شوگر کی پیچیدگی باعث ہر 20سیکنڈ میں ذیابیطس کے مریض کا پاؤں کاٹا جاتاہے،انہو ں نے بتایا کہ خون میں شوگر کی مقدار 300mg/dlسے زائد ہونے پر خون جمنا شروع ہوجاتا ہے، جو دوسری بیماریوں کا باعث بنتاہے، ایسے میں مریض کو زیادہ پانی پینا چاہیے، انہو ں نے مزید بتایا کہ عام حالات میں جس طرح شوگر مانیٹر کی جاتی ہے، روزہ میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، انہو ں نے بتایا کہ سحری کے 3سے 4گھنٹے بعد اور افطار سے ایک گھنٹے پہلے اور افطار کے دو گھنٹے بعد شوگر چیک کی جانی چاہیے،انہوں نے مختلف ادوایات کی روزے کے درمیان ڈوز ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں عوام کو آگہی دی،ایسوسی ایٹ پروفیسر سید محمد حسن نے کہاکہ انسولین لینے والے مریضوں کودوران ِ روزہ احتیاطی تدابیر کے لیے آگاہ کیا، اور کہابتایا کہ اگر کسی مریض کی شوگر 60mg/dlسے کم ہوجائے تو اسکی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے، ایسے میں اسے روزہ افطار کرلینا چاہیے، انہوں نے کہا عام طور پر دورانِ روزہ شوگر کی ادویات کی مقدار آدھی کردی جاتی ہے، ایسے میں انہو ں نے روزے میں مریضوں کو مختلف قسم کی انسولین کی دوا کی مقدار کے بارے میں معلومات دی،انہوں نے بتایا کہ دنیامیں سب سے زیادہ ذیابیطس کے مریض چائنا، پھر انڈیا، اسکے بعد امریکا اور چوتھے نمبر پر پاکستان میں ہیں، اگر ہم نے اپنی غذا اور ورزش یا چہل قدمی کو معمول نہ بنایا تو نہ صرف ذیابیطس بلکہ دوسری خطرناک بیماریوں میں اضافہ ہوگا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فریا طارق مسعود نے کہا کہ نائیڈ نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان بھر مریض نائیڈ میں آتے ہیں، ہم یہا ں روزانہ 150سے زائد مریض ذیابیطس کے مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں، جبکہ رمضان سے پہلے مریضوں کی تعداد 200تجاوز کرجاتی ہے، جبکہ سال میں 50000ہزار سے زائد ذیاییطس کے مریضوں کو سہولیا ت فراہم کرتے ہیں، انہو ں نے بتایا کہ ہم ایسے مریض جو انسولین خرید نہیں سکتے انہیں فری آف کاسٹ انسولین فراہم کرتے ہیں، جبکہ ان کے علاوہ مریضوں کو بغیر نفع کے فراہم کی جاتی ہیں، انہو ں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ذیابیطس کی بڑھنے کی ایک وجہ بے وقت اور رات میں دیر سے کھانا کھانا بھی ہے، جو نہ صرف مریض کی شوگر کی مقدار کو بڑھاتا ہے، بلکہ بدہضمی جیسے دوسرے امراض کا بھی سبب بنتا ہے، عام مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں مریض بتائے گئے جدول پر عمل نہیں کرتے، بدپرہیزی عام ہے، جس کے باعث ایسے مریض مزید پیچیدگیوں کو شکار ہوجاتے ہیں۔

غذا کا سب سے اہم کردار شوگر کو کنٹرول کرنے میں ہوتا ہے، اسلیے مریضوں کو بتائے گئے جدول پر سختی سے عمل کرنا چاہیے،انہوں نے بتایا کہ دورانِ روزہ اگر پروٹین والی غذا استعمال کی جائے تو کافی مفید ہوتی ہیں۔چکنائی سے پرہیز کریں کہ یہ شوگر کے ساتھ کولیسٹرول کے بڑھاوے کا سبب بھی بنتی ہے۔سیمینار کے دوران فری شوگر کیمپ کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔بعد ازاں سوال و جوابات کا سیشن بھی ہوا، جس میں مریضوں نے اپنے مرض سے متعلق مختلف سوالات کئے۔#

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں