اپر اور لوئر اورکزئی ایجنسی، جیٹ طیاروں کی بمباری، 20 شدت پسند ہلاک، متعدد زخمی

اتوار 14 مارچ 2010 18:41

اورکزئی ایجنسی،قندھار (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔14مارچ۔2010ء) اپر اور لوئر اورکزئی ایجنسی کے علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 20شدت پسند ہلاک اور متعدد زخمی اور چھ ٹھکانے تباہ ہوگئے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو علاقے سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے لوئر اورکزئی ایجنسی کے علاقے نیروبک میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو جیٹ طیاروں کے ذریعے نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں18 شدت پسند ہلاک اور چار زخمی ہوگئے اور شدت پسندوں کے چار ٹھکانے تباہ ہوگئے۔

ایک اعلی سرکاری اہلکار نے برطانوی ریڈیو کو بتایا کہ شدت پسند کے ٹھکانوں پر جیٹ طیاروں نے یہ بمباری اتوار کی دوپہر دو بجے کے قریب اورکزئی ایجنسی کے علاقے فیروز خیل کے علاقے میں کی۔

(جاری ہے)

اہلکار کا کہنا تھا کہ بمباری سے شدت پسندوں کے ٹھکانے مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ان کے مطابق ٹھکانے بیت اللہ گروپ کے مقامی طالبان کے تھے اور ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کا تعلق بھی اسی گروپ سے بتایا جاتا ہے۔

مذکورہ اہلکار کا کہنا ہے کہ ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ہلاک ہونے والوں میں کوئی غیر ملکی بھی شامل ہے یا نہیں البتہ تباہ ہونے والے ٹھکانوں پر غیر ملکیوں کا آنا جانا تھا۔ ادھراپر اورکزئی ایجنسی کے علاقوں غنڈمیکہ اور تالی میں بھی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی گئی جس کے نتیجہ میں دو افراد ہلاک اور شدت پسندوں کے دو ٹھکانے تباہ ہوگئے۔

یاد رہے کہ چند مہینے پہلے جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد بڑی تعداد میں شدت پسند اورکزئی ایجنسی منتقل ہوگئے تھے اور اورکزئی ایجنسی میں بھی سکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف غیر اعلانیہ کارروائی شروع کر دی جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ علاقے سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جیٹ طیاروں کی بمباری سے طالبان کے دو ٹھکانوں کے علاوہ حاجی نصراللہ اور طالبان کمانڈر اخترجان کے گھروں کو بھی نشانہ بنایا ہے جس میں کسی جانی نقصان اس لیے نہیں ہوا ہے کہ ان گھروں سے لوگ پہلے ہی چلے گئے ہیں۔

مقامی لوگوں کے مطابق جیٹ طیاروں کی بمباری سے قریب ہی ایک سرکاری پرائمری سکول کو بھی نقصان پہنچا ہے۔دوسری جانب افغانستان کے جنوبی شہرقندھار میں بم کے ایک دھماکے میں ایک پاکستانی مزدورجاں بحق اور چھ زخمی ہو گئے جبکہ گزشتہ روز قندھار میں ہونے والے چار بم دھماکے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 35ہوگئی ہے مقامی پولیس نے بتایا کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب پاکستانی مزدوروں کو لے جانے والی گاڑی سٹرک میں نصب بم سے ٹکرا گئی ۔

یہ واقعہ قندھار شہر کے مشرقی حصے میں پیش آیا جہاں قریب ہی پاکستان کا کونسل خانہ بھی موجود ہے۔ان مزدوروں کا تعلق بھی اسی تعمیراتی کمپنی سے بتایا گیا ہے جس کے لیے کام کرنے والے پانچ دوسرے پاکستانی شہریوں کو گزشتہ ہفتے قندھار کے ہی ایک علاقے میں موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے خودکارہتھیاروں سے حملہ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

کسی نے ابھی تک پاکستانی شہریوں پر ان دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔یہ واقعہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ملحقہ افغان شہر میں اتوار کو اس وقت پیش آیا جب مزدوروں کو لے جانے والی گاڑی شہر کے مشرقی حصے میں واقع پاکستانی قونصلیٹ کے قریب سڑک کنارے نصب بم سے ٹکرا گئی۔افغان پولیس کے افسر محمد آصف نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایاکہ یہ ایک روڈ سائیڈ بم تھا جس نے پاکستانی مزدوروں کی گاڑی کو نشانہ بنایا اور اس دھماکے میں ایک شخص جاں بحق اور چھ زخمی ہوگئے۔

پولیس کے مطابق جاں بحق اور زخمی ہونے والے مزدوروں کا تعلق پاکستانی تعمیراتی کمپنی سائیتاسے تھا۔خیال رہے کہ یہ وہی تعمیراتی کمپنی ہے جس کے پانچ مزدوروں کو رواں ماہ کی چار تاریخ کو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔مذکورہ کمپنی گذشتہ کئی سالوں سے افغانستان میں سڑکوں کی تعمیر کا کام کر رہی ہے اور پچھلے برس قندھار میں اسی کمپنی کے دفتر کے قریب ایک خود کش حملے میں پندرہ سے زائد پاکستانی ہلاک ہوئے تھے۔

ایک روز قبل قندھار کے مختلف علاقوں میں انتہائی منظم انداز میں کیے گئے کئی بم دھماکوں میں کم ازکم 35 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ طالبان نے یہ حملے کرنے کا دعوی کیا ہے۔قندھار کے گورنر نے اتوار کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صوبے میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کے لیے مزید افغان اور نیٹو افواج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔

طالبان عسکریت پسند عام طو پرافغان حکومت، غیر ملکی افواج اور ان کے حامیوں پر حملوں کی ذمہ داری کا دعوی کرتے ہیں لیکن انھوں نے شاذو نادر ہی افغانستان میں کام کرنے والے پاکستانی شہریوں کوایسی کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہے۔گزشتہ روز ہونے والے حملوں کے بعد شہر کی زندگی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔قندھار ہمیشہ سے افغانستان کی سیاست کا اہم مرکز رہا ہے ۔

ملا عمر سمیت طالبان کی اعلی قیادت کا تعلق بھی قندھار سے ہے اور موجودہ صدر حامد کرزئی کا تعلق بھی قندھار سے ہیں۔امریکہ نے حال ہی میں کہا ہے کہ قندھار کے پڑوسی صوبے ہلمند میں آپریشن کے اختتام کے بعد وہ قندھار میں بھی اسی طرح کا فوجی آپریشن کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔افغان صدر حامد کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی نے، جو صوبائی کونسل کے سربراہ ہیں، کہا ہے کہ حملہ آور قندھار جیل کو توڑنا چاہتے تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

جون دو ہزار آٹھ میں اس طرح کے ایک حملے میں طالبان نے قندھار جیل کے مرکزی دروازے کو توڑ کر سینکڑوں قیدیوں کو رہا کروا لیا تھا۔احمد ولی کرزئی نے کہا ہے اس بار طالبان اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور وہ جیل کی دیواروں کو توڑنے میں ناکام رہے ہیں لیکن اردگرد کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔قندھار کے بڑے ہسپتال کے سربراہ عبد القیوم پکہلا نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے میں عام شہری اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :

اورکزئی ایجنسی میں شائع ہونے والی مزید خبریں