ٰکوئٹہ ،ایران سے ڈیزل اور پٹرول کی سمگلنگ پر پابندی کے بعد سمگلروں نے ٹماٹرکی سمگلنگ شروع کردی

جن گاڑیوں میں پہلے تیل لایا جاتا تھا اب ان میں ٹماٹر لائے جا رہے ہیں،کسٹمز ترجما ن ڈاکٹر عطا بڑیچ

اتوار 17 نومبر 2019 22:21

ٰکوئٹہ ،ایران سے ڈیزل اور پٹرول کی سمگلنگ پر پابندی کے بعد سمگلروں نے ٹماٹرکی سمگلنگ شروع کردی
'کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 نومبر2019ء) پاکستان ایران سرحدی علاقوں سے تیل کے سمگلروں نے حکومت کی جانب سے پابندیوں کے بعد اب ہمسایہ ملک سے ٹماٹر کی سمگلنگ شروع کر دی ہے۔ملک بھر میں گذشتہ کئی ہفتوں سے ٹماٹر کی طلب اور رسد میں واضح فرق کے باعث قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ کراچی، لاہور ، پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک کے دیگر شہروں میں ٹماٹر 200 روپے سی250 روپے فی کلو تک میں فروخت ہو رہے ہیں۔

ایرانی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ڈیزل اور پٹرول کی سمگلنگ پر عائد پابندی پر سختی سے عملدرآمد کے باعث سمگلروں نے ایران سے ٹماٹر کی سمگلنگ کا کام شروع کر دیا ہے۔ جن گاڑیوں میں پہلے تیل لایا جاتا تھا اب ان میں ٹماٹر لائے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں ٹماٹر کے بحران کے حل کے لیے حکومت کی جانب سے ایران سے درآمد کی اجازت ملنے کے بعد ٹماٹر کی بھاری کھیپ کی اندرون ملک ترسیل شروع کر دی گئی ہے۔

کوئٹہ میں پاکستان کسٹمز کے ترجمان ڈاکٹر عطا بڑیچ نے عرب خبر رساں ادارے کو بتا یا کہ وفاقی حکومت نے ملک میں ٹماٹر کے بحران کے پیش نظر ایران سے درآمد کی اجازت دی ہے۔ گذشتہ دو دن کے دوران ایران سے اب تک پانچ ٹریلر تفتان کے راستے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ مزید گاڑیاں بھی پاک ایران سرحد تک پہنچ رہی ہیں۔ فوڈ ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے پیٹرن وحید احمد کے مطابق قیمتوں میں عدم توازن کی وجہ سے ملک میں ٹماٹو پیسٹ انڈسٹری بھی گذشتہ کئی ماہ سے بند ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ٹماٹر کی قیمتوں میں استحکام دسمبر کے آخر تک ہی آ سکتا ہے جب سوات، سندھ اور ملک کے دوسرے علاقوں میں ٹماٹر کی فصل تیار ہو جائے گی تاہم اگر سندھ میں بارشیں ہوئیں تو ٹماٹر کا یہ بحران جاری رہے گا۔وحید احمد کا کہنا ہے کہ بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔ حکومت کو زراعت کو تباہی سے بچانے کے لیے تحقیق، ترقی اور نئی ٹیکنالوجی کے استعمال پر توجہ دینا ہوگی اور کسانوں کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے آگاہی، ضروری تربیت اور سہولیات کی فراہمی کرنا ہوگی ورنہ آنے والے سالوں میں فوڈ ان سکیورٹی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں