ع* یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ 19 ارب روپے حکومت ِپاکستان کی جانب سے ملنے کے باوجود نیشنل ہائی وے اتھارٹی کراچی سے خضدار اور کچلاک چمن روڈ N-25 پر تعمیرشروع کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے،بلوچستان ہائیکورٹ

بدھ 17 اپریل 2024 23:00

.کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 اپریل2024ء) عدالت عالیہ بلوچستان کیچ جسٹس عبداللہ بلوچ اور جسٹس روزی خان بڑیچ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کراچی-خضدار تا ژوب N-25 کے مقدمہ کی سماعت کی۔دو رکنی بینچ کے معزز ججز نے مشاہدہ دیا کہ یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ 19 ارب روپے حکومت ِپاکستان کی جانب سے ملنے کے باوجود نیشنل ہائی وے اتھارٹی کراچی سے خضدار اور کچلاک چمن روڈ N-25 پر تعمیرشروع کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

جس سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حکام باًلا کی نااہلی ثابت ہوتی ہے۔ اس ائینی درخواست کی پیروی کے لیے ساجدمنظور اسدی، جوائنٹ سیکرٹری،منسٹری آف اکنامکس افیئرز، آفتاب احمد خان ڈپٹی سیکرٹری، منسٹری آف اکنامکس افیئرز، وقار انور، ممبر انفراسٹرکچر بمع حفیظ خان جوائنٹ سیکرٹری منسٹری آف فنانس پاکستان اور نور الحسن جنرل منجیر (ساو ٴتھ بلوچستان)نیشنل ہائی وے اتھارٹی خضدار ریجن اور ضیائالدین بخاری، پراجیکٹ ڈائریکٹرخضدار کچلاک پراجیکٹ نیشنل ہائی وے اتھارٹی بمعہ نصیر الدین بنگلزئی ڈپٹی اٹارنی جنرل، نصرت بلوچ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل،دیگر وکلاء اور متعلقہ حکام پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

اِس موقع پر منسٹری آف پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ گورنمنٹ آف پاکستان اسلام آباد کی جانب سے کوئٹہ۔کراچی، ژوب N-25روڈ کو دو رویا (Dualization) کے متعلق فنڈز کی فراہمی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس کے مطابق کراچی۔خضدار، کوئٹہ اور ژوب روڈ کی منظوری 07 اکتوبر 2022 کو ECNICنے دی اور 273کلومیٹر روڈ کے لئے 74 ارب روپے جو کہ اِسی سال پی ایس ڈی پی 2024-2023 میں منظور کئے گئے اور پی ایس ڈی پی میں باقاعدہ ظاہر کی گئی۔

اِسی طرح N-25کے دیگر سیکشن جیسا کہ کراچی، کرارو 83 کلومیٹر، کچلاک چمن ہائی وے سیکشن 67 ارب روپے منظور کی کئی اور اس رقم سے این ایچ اے کو اب تک چھ، چھ ارب روپے مختلف اوقات میں اب تک ادا کئے گئے ہیں اور باقی فنڈز اِس لئے ریلیز نہیں کئے گئے کیونکہ پہلے سے دی گئی 12 ارب روپے کی رقم سے آج تک این ایچ اے نے ایک روپیہ بھی استعمال نہیں کیا جب اِس صورتحال کا این ایچ کے جنرل مینجر اور دیگر افسران سے سامنہ کرایا گیا تو ان کے پاس کوئی بھی جواب نہ تھا۔

اور اس بات کی تصدیق کی کہ 12 ارب روپے ملنے کے باوجود این ایچ اے نے ایک روپیہ بھی استعمال میں نہیں لایا اور نہ ہی ان کے پاس اس رقم کو استعمال نہ کرنے کا کوئی معقول جواب تھا جس سے این ایچ اے کے حکام کی ناکامی، بدنتیی اورنااہلی ثابت ہوتی ہے اور مزید افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان کا یہ واحد روڈ ہائی وے اتھارٹی کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ کر بلا وجہ تاخیر کا شکار ہوا جس کے سبب اب تک مختلف حادثات میں سینکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو ببیٹھے ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری نیشنل ہائی وے اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے۔

اس موقع پر ممبر پلاننگ، این ایچ اے اسلام آباد اور ممبر این ایچ اے بلوچستان، جنرل میجنر ساو ٴتھ بلوچستان اور تمام پراجیکٹ ڈائریکٹرز N-25 کو عدالت عالیہ کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ اگلی سماعت پر آ کر اس بات کی وضاحت کریں کہ فنڈز ملنے کے باوجود دورویا روڈ کا کام کیونکر تاخیر کا شکار ہے اور اس کا کون ذمہ دار ہے۔ دریں اثناء پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت بلوچستان کو بذریعہ ممبر انفراسٹرکچر احکامات دئیے گئے کہ N-25کے منظور اور مختص شدہ جملہ فنڈ کو لیپس ہونے سے بچایا جائے اور سہ ماہی (Quartarly)مذکورہ رقم متعلقہ محکمہ(این ایچ ای) کو بر وقت فراہم کی جائے تاکہ دو رویا روڈ کی تعمیر میں کوئی تاخیری عمل معرض ِوجود میں نہ آئے۔

اس موقع پر چیئرمین این ایچ اے کو حکم دیا گیا کہ وہ دو رویا روڈ کی تعمیر میں تاخیر اور دستیاب فنڈز کے عدم استعمال پر انکوائری کر کے رپورٹ مرتب کریں اور اگلی سماعت پر رپورٹ عدالت عالیہ میں پیش کریں۔ اس کے علاوہ دوران سماعت این ایچ اے کے حکام سے خضدار۔کچلاک روڈ کی تعمیر میں سست روی پر وضاحت طلب کی گئی اور سختی سے ہدایت کی گئی کہ مذکورہ روڈ جو کہ زیر تعمیر ہے کو معینہ مدت میں مکمل کیا جائے اس کے علاوہ این ایچ کے جنرل مینجر (ساو ٴتھ بلوچستان) اور پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حب ندی پل کی تعمیر میں تاخیر پر سخت سرزنش کی گئی اور انہیں سختی سے ہدایت کی گئی کہ مذکورہ پل کی تعمیر بلا تاخیر مکمل کر کے ٹریفک کیلئے بحال کریں تاکہ عوام الناس کے بنیادی حقوق پر انکی داد رسی ہو سکے۔

سماعت 30 اپریل 2024 تک ملتوی کر دی گئی۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں