ملک بھر کی ماڈل کورٹس میں پندرہ یوم کے دوران 34 مجرمان کو سزائے موت اور 82 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی

ڈائریکٹر جنرل ماڈل کورٹس سہیل ناصر نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ماڈل کورٹس کی کارکردگی رپورٹ پیش کر دی

بدھ 22 مئی 2019 17:44

راولپنڈی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 مئی2019ء) ڈائریکٹر جنرل ماڈل کورٹس پاکستان سہیل ناصر نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ماڈل کورٹس کی پندرہ یوم کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 110 ماڈل کورٹس نے قتل کے 427 اور منشیات کے 677 مقدمات کا فیصلہ کیا ہے جبکہ 5678 گواہان کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے۔ کل 34 مجرمان کو سزائے موت اور 82 مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

276 مجرمان کو 737 سال 6 ماہ سزا دی گئی جبکہ مجموعی طور پر 4 کروڑ 88 لاکھ 25 ہزار 101 روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔پنجاب کی 36 عدالتوں نے 388 مقدمات، بلوچستان کی 19 عدالتوں نے 49 مقدمات، سندھ کی 27 عدالتوں نے 252 مقدمات، خیبر پختونخواہ کی 26 عدالتوں نے 376 مقدمات اور اسلام آباد کی دو عدالتوں نے 39 مقدمات کا فیصلہ کیا۔

(جاری ہے)

ان عدالتوں میں پرانے مقدمات کے فیصلہ جات ترجیحی بنیادوں پر کیے جا رہے ہیں جن میں ایک چالیس سال پرانا قتل کا مقدمہ بھی شامل ہے جو کہ 1979 میں درج ہوا تھا۔

ان عدالتوں میں 1994 سے 2000 تک کے 7 مقدمات، 2001 سے 2005 تک کے 7 مقدمات، 2006 سے 2010 تک کے 61 مقدمات, 2011 سے 2015 تک کے 296 مقدمات اور 2016 سے 2019 تک 733 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا۔ ماڈل کورٹس کی کامیابی کی وجہ سے بلوچستان میں مقدمات کی تعداد بہت حد تک کم ہو چکی ہے۔ سب سے زیادہ مقدمات کا فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج ملیر نوید احمد سومرو کی عدالت میں کیا گیا جنہوں نے 18 قتل اور 45 منشیات کے مقدمات کا فیصلہ کیا۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اسلام آباد کی دو ماڈل کورٹس جون کے آخر تک اسلام آباد کی عدالتوں میں زیر سماعت قتل کے تمام مقدمات کا فیصلہ کر دیں گی۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ دو دن اتوار کی تعطیل کی وجہ سے یہ کارکردگی تیرہ دنوں پر مشتمل ہے جبکہ رمضان شریف کی وجہ سے عدالتوں کے اوقات کار میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی کمی بھی واقع ہوئی ہے۔ عوام الناس نے ماڈل کورٹس میں مقدمات کی تیزترین سماعت کو بھرپور طریقے سے سراہا ہے۔

راولپنڈی میں شائع ہونے والی مزید خبریں