بلوچستان اسمبلی ،خواتین کے شناختی کارڈز بنا نے کیلئے عملی اقدامات ،اے پی پی میں پشتو زبان اور کوئٹہ میں تعینات ملازمین کو مستقل کر نے کے حوالے سے قرار دادیں منظور

اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن آفیسرز کے امتحانات کو ملتوی کر نے ،سٹی نا لہ میں منشیات فروشی کو ختم کر نے سے متعلق توجہ دلائو نوٹسز حکومتی یقین دہانی کے بعد نمٹا دئیے گئے

پیر 11 دسمبر 2017 21:44

�وئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 دسمبر2017ء) بلوچستان اسمبلی میں خواتین کے شناختی کارڈز بنا نے کے لئے عملی اقدامات اور قومی خبر رساں ادارے اے پی پی میں پشتو زبان اور کوئٹہ میں تعینات ملازمین کو مستقل کر نے کے حوالے سے قرار دادیں منظور کرلی گئیں ،اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن آفیسرز کے امتحانات کو ملتوی کر نے اور سٹی نا لہ میں منشیات فروشی کو ختم کر نے سے متعلق توجہ دلائو نوٹسز حکومتی یقین دہانی کے بعد نمٹا دئیے گئے ،اجلاس میں بولان یو نیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کا مسودہ قانون منظور کرلیا گیا ،بلوچستان اسمبلی کا اجلاس سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی کی زیر صدارت ایک گھنٹہ 20منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔

اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین عبیداللہ جان بابت،سپوژمئی اچکزئی ، عارفہ صدیق اور معصومہ حیات کی مشترکہ قرار داد نصراللہ زیرئے نے ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر مین12.7ملین خواتین نادرا کے ساتھ رجسٹرڈنہ ہونے کی بناء پر ان کے نام انتخابی فہرستوں میں موجود نہیں ہیں جن میں سے تقریباً چھ لاکھ خواتین کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے یہ خواتین کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث آئندہ عام انتخابات میں اپنا حق رائے دہی کے استعمال سے محروم رہ جائیںگی اس لئے صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ نادرا اور دیگر متعلقہ اداروں کو ان خواتین کی کمپیوٹرائزڈ شناختی رجسٹریشن کو یقینی بنانے اور اس سلسلے میں درکار وسائل کی فوری فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ نہ ہونے کی بناء پر سات لاکھ خواتین اپنے جمہوری حق کے استعمال سے محروم رہ جائیں گی اب تک نادرا کی جانب سے ان خواتین کو شناختی کارڈ کے حصول کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس کی بناء پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والی چھ لاکھ خواتین حق رائے دہی سے محروم رہ جائیں گی ان میں سے ایک لاکھ خواتین کا تعلق کوئٹہ سے ہے یہ قرار داد منظور کرکے متعلقہ حکام سے بات کی جائے ۔

صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں گیارہ ایسے اضلاع ہیں جن میں بدامنی خوف و ہراس کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد کے پاس شناختی کارڈ موجود ہی نہیں نادرا کو اس مسئلے کے حل کے لئے فوری طو رپر اقدامات کرنے چاہئیں ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ جہاں آبادی زیادہ ہے ان علاقوں میں نادرا کے سب آفسز کھولے جائیں ۔

صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہا کہ ہمارے صوبے میں مزید 180آسامیوں کی ضرورت ہے جو سابق وزیر داخلہ اور موجودہ وزیر داخلہ نے دینے کی یقین دہانی کرائی مگر اب تک پیشرفت نہیں ہوئی ہے ہمارے صوبے کے 34اضلاع کے لئے صرف21موبائل وین ہیں جو ہر ضلع کو پندرہ پندرہ دن کے لئے دی جاتی ہیں جوناکافی ہے اسی طرح نادرا میں عملے کی بھی شدید کمی ہے اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔

شاہدہ رئوف نے کہا کہ خواتین کو انتخابی عمل سے دور رکھنا زیادتی ہے جب حکومت کے لوگ ہی نادرا کے خلاف ہیں تو کیسے بہتری آئے گی نادرا کو بہتر بنانے کے لئے عملی اقدامات پر غور کیا جائے اور بلوچستان اسمبلی کی قرار دادوں پر عملدرآمد کے لئے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کے سپرد کیا جائے ۔پشتونخوا میپ کے رکن مجیدخان اچکزئی نے کہا کہ نادرا کے پاس جو وین ہیں ان میں نیٹ سسٹم موجود نہیں وفاقی حکومت کی جانب سے نادرا کو پچاس نئی وین ملی ہیں جس میں سے بلوچستان کو دو وین دینے کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن یہ تعداد ناکافی ہے نادرا کے پاس صوبے میں سوزوکی گاڑیاں ہیں جو سنگلاخ پہاڑوں پر نہیں جاسکتیں ۔

انہوں نے کہا کہ نادرا کی بلاک شناختی کارڈ کمیٹیوں کے حوالے سے بھی ہمیں تشویش ہے کیونکہ اس میں عوام کا وقت ضائع ہورہا ہے ۔جمعیت العلماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ چونکہ ہمارا علاقہ قبائلی ہے وہاں پر خواتین کے شناختی کارڈ ز کے لئے خواتین عملہ تعینات کیا جائے ۔بعدازاں سپییکر نے ایوان کی مشاورت قرار داد کو پورے ایوان کی مشترکہ قرار داد کی صورت منظوری کے لئے پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دی اور قرار داد کو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں قائم خصوصی کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ دی ۔

انہوں نے سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ ڈائریکٹر جنرل نادرا کو سپیکر چیمبر میں بلائیں اور اس حوالے سے ارکان کو بریفنگ دیں ۔اجلاس میں عبدالرحیم زیارتوال عبیداللہ جان بابت نصراللہ زیرئے سپوژمئی اچکزئی عارفہ صدیق اور معصومہ حیات کی مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے عارفہ صدیق نے کہا کہ سی پیک کے مغربی روٹ کی اہمیت میں اضافہ ہونے کے باعث وفاقی وزارت اطلاعات کے زیر کنٹرول قومی خبر رساں ادارے اے پی پی نیوز ایجنسی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ شہر میں قائم اپنے بیورو دفتر کو خبریں تصاویر اور ویڈیوز فراہم کررہا ہے تاکہ صوبے کی ثقافت اور سی پیک کی اہمیت کو اجاگر کیا جاسکے اس سلسلے میں ماسوائے پشتو کے دیگر تمام مقامی زبانوں بلوچی براہوئی اور فارسی کی نشریات بھی شروع کردی گئی ہے جبکہ دودسری جانب قومی خبر رساں ادارے اسلام آباد میں تعینات کنٹریکٹ ملازمین ریگولر کردیئے گئے ہیں جبکہ کوئٹہ بیورو میں گزشتہ کئی سالوں سے کنٹریکٹ کی بنیاد پر تعینات ملازمین تاحال ریگولر نہیں کئے گئے اس لئے صوبائی حکومت وفاقی سے رجوع کرے کہ دیگر مقامی زبانوں کی طرہ صوبے میں پشتو زبان کی سروس شروع کرنے نیز کوئٹہ بیورو میں تعینات کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کیا جائے تاکہ ان میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا ازالہ ممکن ہوسکے۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ صوبے میں اے پی پی کا ایک دفتر موجود ہے اے پی پی کے کل ملازمین کی تعداد گیارہ سو ہے جبکہ اس کا بجٹ 750ملین ہے بلوچستان میں اے پی پی کی ملازمتوں میں ہمارے کوٹے کے مطابق 66آسامیاں بنتی ہیں جبکہ اس وقت صرف25ملازمین کام کررہے ہیں جن میں 4جعلی ڈومیسائل پر تعینات ہیں جن کی نشاندہی ہوچکی ہے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔

اے پی پی میں تعینات تمام ملازمین کو مستقل کیاگیا ہے لیکن بلوچستان کے تین ملازمین کو تاحال مستقل نہیں کیا گیا انہیں مستقل کیا جائے اور جعلی ڈومیسائل پر بھرتی ہونے والوں کے خلا ف کارروائی کی جائے کوئٹہ بیورو میں انگلش رپورٹر کے لئے میرٹ پر آنے والے امیدوار کو نظر انداز کرکے من پسند امیدوار کی تعیناتی کا نوٹس لیا اور پشتو کے رپورٹرکی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے ۔

قرار اد پر ولیم جان برکت ، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے بھی اظہار خیال کیا وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر جعلی ڈومیسائل پر کوئی بھرتی ہوا ہے تو اس کی تحقیقات کرائیں گے بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی ۔جلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے عارفہ صدیق نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قلعہ سیف اللہ میں خسرہ کی بیماری نے وباء کی شکل اختیار کرلی ہے جس میں اب تک20اموات کی تصدیق ہوئی ہے محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ اپنے طو رپر کوششیں کررہے ہیں لیکن ان سے صورتحال کنٹرول میں نہیں آرہی لہٰذا میری وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری سے گزارش ہے کہ وہ خسرے کے روک تھام کے لئے قلعہ سیف اللہ میں میڈیکل کیمپ قائم کرنے کی ہدایت کریں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ سوئی میںپی پی ایل کے ملازمین گزشتہ کئی روز سے سن کوٹہ پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اگر سوئی میں بھی سن کوٹے پر عمل نہیں ہوتا تو یہ بڑی ناانصافی ہے وزیراعلیٰ اس کا نوٹس لے اور میڈیا بھی اس مسئلے کو اجاگر کرے ۔

اجلاس میں اپوزیشن رکن شاہد ہ رئوف نے اپنا توجہ دلائو نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی سے استفسار کیا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن نے 28نومبر2017ء کو صوبائی اسسٹنٹ کمشنرز اور سیکشن آفیسرز کے امتحانات کا اعلان کیا اور کمیشن یہ امتحان مارچ2018ء میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ سی ایس ایس کے امتحان بھی فروری2018ء میں ہوں غے صوبے کے طلباء وطالبات وفاقی اور صوبائی دونوں امتحانات دینے کے خواہش مند ہیں کیا حکومت صوبائی اسسٹنٹ کمشنرز اور سیکشن آفیسرز کے امتحانات کے شیڈول میں ترمیم کا کوئی ارادہ رکھتی ہے یانہیں۔

صوبائی وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی نواب محمدخان شاہوانی نے یقین دہانی کرائی کہ وہ اس سلسلے میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے حکام سے بات کریں گے تاہم شاہدہ رئوف کا کہنا تھا کہ یہ اہم مسئلہ ہے اس حوالے سے عملی اقدامات ضروری ہیں جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات میں ایسے امیدوار شامل ہیں جنہوں نے سی ایس ایس میں الگ اور پی سی ایس میں الگ مضامین رکھے ہوتے ہیں اب جب دونوں امتحانات ایک ساتھ آرہے ہیں تو ان امیدواروں کو تیاری میں مشکلات پیش آئیں گی اس لئے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو کہہ کر امتحانات جون تک موخر کئے جائیں ۔

میر جان محمد جمالی نے کہا کہ سی ایس ایس امتحانات کا شیڈول دیکھ کر اس کے بعد چند ہفتوں کے وقفے سے پی سی ایس کا شیڈول جاری کیا جائے ۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں گے تاکہ دونوں امتحانات ایک ساتھ نہ ہوں انہوںنے کہا کہ پچھلی مرتبہ بھی اسی طرح ہوا تھا اس سال بھی ایسا ہورہا ہے تو وہ اس معاملے کو دیکھ لیں گے جس کے بعد توجہ دلائو نوٹس نمٹادیاگیا۔

حکومتی رکن انیتا عرفان نے سٹی نالہ کوئٹہ میں منشیات فروشی کے خاتمے سے متعلق توجہ دلائو نوٹس دیتے ہوئے کہا کہ سٹی نالہ منشیات فروش و عادی افراد کا گڑھ بن چکا ہے جس کے باعث دیگر افراد بشمول سکول و کالج کے طلباء وطالبات بھی منشیات عادی بن رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اگر یہ بات درست ہے تو وزیر داخلہ بتائیں کہ حکومت سٹی نالے سے منشیات فروشی کی روک تھام اور منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لئے کیا اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

وزیراعلیٰ کے مشیر برائے قانون وپارلیمانی امور سردار رضا بڑیچ نے کہا کہ یہ بہت ہم ایک مسئلہ ہے اس حوالے سے سخت اقدام کی ضرورت ہے ہم یقین دلاتے ہیں کہ جلد ہی کارروائی کریں گے اس سلسلے میں متعلقہ محکموںسے بات بھی کی گئی ہے ۔ حسن بانورخشانی نے کہا کہ اب تو صوبے کی خواتین بھی منشیات کی لت میں مبتلا ہورہی ہیں جو زیادہ تشویشناک ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ کی ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے کہا کہ ہم صوبائی اسمبلی میں اس حوالے سے پہلے بھی کافی مرتبہ بات کرچکے ہیں سٹی نالہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اب تک ہم سے یہ علاقہ کلیئر نہیں ہوپارہا ۔

چیئر مین پی اے سی مجیدخان اچکزئی نے کہا کہ پہلے بھی ایوان میں اس پر بات ہوتی رہی ہے انہوں نے انسداد منشیات کے لئے قائم وفاقی ادارے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ خود منشیات کی سپلائی میں ملوث ہے میرے حلقے میں ہزاروں ٹن چرس تیار ہوتی ہے جس کی باقاعدہ فیکٹریاں ہیں کیا علاقہ ایس ایچ او کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کون کون ملوث ہے ہم نے آج تک منشیات کا کوئی بڑا سمگلر نہیں پکڑا اس وقت ہم منشیات کے استعمال کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں جن کاکام خاتمہ تھا وہ خود پروموٹ کررہے ہیں ۔

سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ اچھے اچھے خاندانوں کی خواتین اب منشیات کی لت میں مبتلا ہوچکی ہیں جو زیادہ افسوسناک ہے انہوں نے کہا کہ میں مجیدخان اچکزئی کی تائید کرتا ہوں جن کا کام منشیات کا تدارک کرنا ہے وہ خود اس میں ملوث ہورہے ہیں ۔اراکین کے اظہار خیال کے بعد وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے منشیات کے خاتمے کے لئے ہر سطح پر اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں بھی یہ مسئلہ زیر غور آیا ہم نے وہاں کابینہ اجلاس میں اس حوالے سے سیر حاصل بحث کی آئی جی پولیس اور دیگر اداروں کو ہدایات کردی ہیں بلوچستان میں منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجے کے لئے مراکز کی کمی ہے جو دور کی جارہی ہے کوئٹہ کے علاوہ تربت خضدار اور دیگر علاقوں میں ری ہیبلیٹیشن سینٹرز بنارہے ہیں جہاں منشیات کے عادی افراد کا علاج معالجہ کرائیں گے انہوںنے کہا کہ منشیات کے خاتمے کے لئے ہم پرعزم ہیں اور اس سلسلے میں آئی جی پولیس کو ہدایات دے دی ہیں ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کی ہے جبکہ منشیات کی سپلائی روکنے کے لئے بھی اقدامات اٹھائیں گے کیونکہ ہماری آنے والی نسل کا سوال ہے ۔

بعدازاں سپیکر نے توجہ دلائو نوٹس نمٹاتے ہوئے اس سلسلے میں سیکرٹری داخلہ اور وزیر داخلہ کو تاکید کہ وہ اس حوالے سے تحریری جواب دیتے منشیات کی روک تھام کے لئے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق آگاہ کریں ۔اجلاس میں رکن اسمبلی ثمینہ خان اور انجینئر زمرک اچکزئی کے توجہ دلائو نوٹسز ان کی غیر موجودگی کے باعث ملتوی کردیئے گئے ۔ اجلاس میں ذاتی وضاحت کے نکتے پر بات کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں کابینہ کے اجلاس کی وجہ سے میں شریک نہیں ہوسکا اس اجلاس میں میرے اور حکومت کے بارے میں باتیں ہوئیں اور مجھ پر الزامات لگائے گئے کہ صرف میرے حلقے میں1ارب75کروڑ روپے کی لاگت سی122ڈیم بن رہے ہیں بہتر ہوتا کہ میری موجودگی میں اس مسئلے کو اٹھایا جاتا تو اس کا ہم جواب بھی دیتے جب ہماری حکومت برسراقتدار آئی تو قلعہ عبداللہ میں محکمہ ایری گیشن کے ذریعے کرائے جانے والے سروے میں300چیک ڈیمز کی نشاندہی کی گئی قومی اسمبلی میں ہمارے اراکین کی کوششوں سے ان کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی منظوری ہوئی جس پر پہلے سال سو اور اب مزید ڈیمز کے لئے فنڈز جاری کئے گئے پورے صوبے میں ڈیمز بن رہے ہیں مگر جس طرح سے میرے بارے میں باتیں کی گئیں وہ افسوسناک ہیں جس جماعت کی جانب سے یہ باتیں کی گئیں ان کی بھی قومی اسمبلی اور سینٹ میںنمائندگی ہے وہ اپنے اضلاع میں سروے کرائیں ہم ان کی مدد کریں گے۔

صوبائی وزیر زراعت سردار اسلم بزنجو نے کہا کہ صورتحال ایسی ہے کہ وفاقی وزیر پلاننگ سے ملاقات میں قلعہ عبداللہ سمیت ہمارے اضلاع کے ڈیمز کی تعمیر پر اتفاق ہوا مگر پھر ہمارے منصوبے تو نکال دیئے گئے صرف قلعہ عبداللہ کے لئے تین سو ڈیمز منظور ہوئے ہمیں اپنے عوام کو جواب دینا مشکل ہورہا ہے اپنے منصوبے منظور کرانا اور ہمارے نکال دینا ناانصافی ہے ۔

جمعیت العلماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ میں نے کسی پر الزام نہیں لگایا بلکہ صرف اس بات پر احتجاج کیا تھا کہ ایک ضلع میں3سو ڈیمز بن رہے ہیں اور باقی صوبوں کے لئے ایک ڈیم نہیں جس پر میں اب بھی احتجاج کرتا ہوں اور اس مسئلے پر میں عدالت سے بھی رجوع کررہا ہوں ۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئر مین عبدالمجیدخان اچکزئی نے کہا کہ ہم پر تنقید کرنے والے 35سال تک صوبے پر حکمرانی کرتے رہے اور ان کی توجہ صرف روڈ سیکٹر پرکرپشن کے لئے مرکوز رہی حالانکہ صوبے کو سب سے زیادہ ضرورت ڈیمز کی ہے انہوں نے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بننے والے ڈیمز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان ڈیمز کے بننے پر ہمیں خوشی ہے مگر ہمارے علاقے میں جو ڈیم بن رہے ہیں وہ کثیر آبادی اور وسیع رقبے کے لئے ہیں اس موقع پر سردار اسلم بزنجو مجیدخان اچکزئی اور سردار عبدالرحمان کھیتران نے بیک وقت بولنا شروع کیا جس پر کان پڑی آواز سنائی نہیں دی بعدازاں سپیکر نے معاملے کو نمٹادیا۔

اجلاس میں بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کا مسودہ قانون مجلس کی سفارشات کی بموجب منظور کرلیا گیا۔ اس موقع پر سپیکر راحیلہ حمید درانی نے ایوان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی قیادت میں یہ موجودہ صوبائی حکومت کا کارنامہ ہے جو اہمیت کا حامل اقدام ہے ۔وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ آج بلوچستا ن اور بلوچستان کے عوام کے لئے انتہائی اہم دن ہے یہ خوش آئند بات ہے کہ میڈیکل سائنسز یونیورسٹی کا بل منظور ہوگیا ہے یہ ایک قومی اجتماعی کام تھا ہم اپنے مستقبل کو ایسے اداروں کے ذریعے بچاسکتے ہیں وفاق اور باقی صوبوں میں میڈیکل یونیورسٹیز قائم تھیں بلوچستان میں یہ اعزاز اس موجودہ صوبائی حکومت کو جاتا ہے جس نے یہ تاریخی اقدام اٹھایا اس سے ہماری تعلیم پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے اس سے صوبے میں تحقیق کو فروغ ملے گا ایم فل اور پی ایچ ڈی کی پڑھائی بھی ممکن ہوگی ۔

بعدازاں اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی نے اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا ۔

سوات میں شائع ہونے والی مزید خبریں