چور اور بددیانت

سکرین پر گھڑی میں رات 2 بجے کے ہندسے چمک رہے تھے۔ ”دیر بھی ہوگئی اور میں تھک بھی گیا ہوں ، ایسا کرو سیدھا گھر ہی لے چلو، پٹرول کل صبح نکلنے سے پہلے بھروا لینا“ انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور کو ہدایت کی۔ ڈرائیور نے مؤدبانہ ’’جی اچھا‘‘ کہا ، گاڑی کا پچھلا دروازہ بند کیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی

Farhana Sadiq فرحانہ صادق منگل 20 جون 2017

Chor aur bad diyanat
کاروباری نقطہ نظر سے یہ میٹنگ ابرار صاحب کیلئے بہت اہم تھی۔ چونکہ یہ ایک بڑا پروجیکٹ تھا اس لیے کلائنٹ پرانے ہونے کے باوجود انہیں ان کو قائل کرتے کرتے تین گھنٹے لگ گئے۔ ملک کے حالات ہی ایسے ہو گئے تھے، ہر شخص نئے کام میں حصہ ڈالتے ہچکچا رہا تھا۔ بہرحال سارے معاملات خوش اسلوبی سے نمٹ گئے تو انہوں نے سکون کا سانس لیا اور میٹنگ برخاست کرتے ہوئے مہمانوں کو بڑی عزت سے رخصت کیا۔

آفس سے باہر نکلتے ہوئے انہوں نے موبائل فون پر نظر ڈالی، سکرین پر گھڑی میں رات 2 بجے کے ہندسے چمک رہے تھے۔ ”دیر بھی ہوگئی اور میں تھک بھی گیا ہوں ، ایسا کرو سیدھا گھر ہی لے چلو، پٹرول کل صبح نکلنے سے پہلے بھروا لینا“ انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور کو ہدایت کی۔ ڈرائیور نے مؤدبانہ ’’جی اچھا‘‘ کہا ، گاڑی کا پچھلا دروازہ بند کیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔

(جاری ہے)

انہوں نے گھر کال ملائی جو فورا ہی ریسیو کر لی گئی ....”ہیلو، ہاں تم جاگ رہی ہو، ٹھیک ہے میں بس پہنچتا ہوں“ پھر کچھ ثانیہ یہاں وہاں کی باتیں سن کر بولے ”نہیں، میں نے کھانا نہیں کھایا، کچھ طبیعت بھاری ہو رہی تھی، سو، جی ہی نہیں کیا، اب گھر آ کر ہی کھاؤں گا“ بات مکمل کرکے انہوں نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ جیسے ہی مرکزی شاہراہ سے ذیلی سڑک پر مڑے، گاڑی میں سے بریک فائر کی آواز آئی اور ساتھ ہی انجن ایک تیز غراہٹ کے ساتھ خاموش ہوگیا۔

”اب اسے کیا ہوگیا!!“ ابرار صاحب نے جھنجھلا کر کہا۔ ڈرائیور نے کار کو سٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود رہی، پھر اس نے کار سے اُتر کر موبائل کی ٹارچ جلائی اور بونٹ کھول کر انجن کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ اس وقت آس پاس مکینک ملنا مشکل ہے، میں اپنے کزن کو فون کر دیتا ہوں، وہ یہاں آ جائے گا، جب تک میں گاڑی کے ساتھ ہوں، آپ ٹیکسی لے کر گھر چلے جائیں، میں سویرے ہی گاڑی لے کر گھر آ جاؤں گا“ ڈرائیور نے کار دوبارہ سٹارٹ کرنے میں ناکامی کے بعد کہا۔

”ٹھیک ہے تم کوئی ٹیکسی روکو“ شدید تھکن ابرار صاحب کے چہرے سے ظاہر تھی۔ پانچ منٹ بعد ڈرائیور نے ادب سے کہا ٹیکسی تو اس وقت کوئی نظر نہیں آئی، میں یہ آٹو لے آیا ہوں، چار سو میں بات ہوئی ہے، آپ اس میں چلے جائیں۔ رکشہ دیکھ کر ابرار صاحب بے مزہ ہوئے مگر چپ چاپ جا کر بیٹھ گئے۔ رکشے والا کوئی نوجوان منچلا تھا، دو منٹ بعد ہی ان سے باتیں کرنا شروع ہو گیا ”موسم کتنا گرم ہو گیا نا ساب !!!“ ”ہممم“ .... انہوں نے فقط کھنکھارنے پہ اکتفا کیا۔

”ایک تو گرمی اوپر سے بجلی کی اتنی لوڈشیڈنگ“ .... رکشے والے نے گفتگو آگے بڑھائی مگر ابرار صاحب کی پوری توجہ باہر سڑک کے کنارے بھاگتی لائیٹوں پر تھی، سو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ”ساب ویسے یہ لوڈشیڈنگ ہونی نہیں چاہیے، سنا ہے گورمنٹ جان بوجھ کر ایسا کروا رہی ہے۔“ رکشے والے کا تجزیہ ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ انہوں نے اسے جھڑک کر کہا ”چپ چاپ رکشہ چلاؤ، دماغ خراب نہ کرو۔

“ اس نوجوان کو شاید ایسے رویہ کی عادت تھی تبھی بدمزہ نہ ہوا، ہلکا سا قہقہہ لگا کر اچھا ساب کہا اور سامنے نظر جما لی۔ انہوں نے سن رکھا تھا رات کے وقت یہ رکشہ ٹیکسی والے سواریوں کو باتوں میں لگا کر کسی سنسان سڑک پر روکتے ہیں اور لوٹ کر چلتے بنتے ہیں، اس لیے وہ بہت احتیاط سے راستے کو دیکھ رہے تھے۔ رکشے والا اب ان سے بے نیاز ہوکر ہلکی آواز میں کوئی گیت گنگنا رہا تھا۔

وہ اتنا چڑ چکے تھے کہ اُس کے گانے پر بھی انہیں جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی ۔ وہ بس جلد از جلد بحفاظت گھر پہنچنا چاہتے تھے۔ رکشہ گھر کی گلی میں داخل ہوا تو انہوں نے سکون کا سانس لیا۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے سٹریٹ لائٹ بند تھیں اور گلی میں سناٹا تھا مگر گھروں سے آتے جنریٹر کے شور اور جھانکتی روشنی نے سنسان گلی کو ہولناک نہیں بننے دیا۔ گھر کے آگے اُترتے ہی انہوں نے ڈور بیل بجائی اور پھر مڑ کر وائلٹ سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر رکشے والے کو پکڑایا اور بولے ”چار سو کاٹ لو۔

“ ”پورے پانچ سو رکھ لوں ساب؟ اتنی رات بھی تو ہوگئی ہے“ رکشے والے نے فدویانہ انداز میں کہا۔ ابرار صاحب جو پہلے ہی اس سے چڑے ہوئے تھے، غصے سے بولے ”تمہارا دماغ خراب ہے، جو بات ہوئی تھی اسی کے حساب سے پیسے لو .... یہ تو چور بازاری ہوئی، حد ہوتی ہے بے ایمانی کی۔“ ”یہ کیا بات کی ساب، ہم نے سوچا اتنے بڑے گھر میں رہتے ہو دل بھی بڑا ہوگا سو مانگ لیے، تم نے نہیں دینا مت دو مگر چوری کی گالی مت دو“ رکشے والے کا موڈ خراب ہونے لگا۔

”کیا ہوا ساب!“ گلی کا چوکیدار، جو اپنے کیبن میں تھا، رکشے کی آواز سن کر آ گیا۔ ”کچھ نہیں“ ابرار صاحب نے اس وقت بات اُلجھانا مناسب نہ سمجھا اور سو روپے اس کے ہاتھ سے لے لیے۔ ”صحیح کہا ساب، بہت ہی بے ایمان اور چور ہوتے ہیں یہ رکشہ ٹیکسی والے“ رکشے والا چلا گیا تو چوکیدار نے بھی اپنی خوشامد نبھائی۔ ڈائننگ ٹیبل پر ابھی انہوں نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ڈور بیل بجی، انہوں نے گھڑی دیکھی تو تین بج رہے تھے۔

انہوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا، وہی رکشے والا کھڑا تھا.... ساتھ ہی گلی کا چوکیدار بھی اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ چوکیداروں کی وفاداری مشکوک نہ تھی پھر بھی احتیاطاً انہوں نے باہر جانے سے پہلے اپنی پستول دراز سے نکال کر پاجامہ میں اڑس لی۔ ”کیا بات ہے!“ ابرار صاحب نے اپنی آواز کو رعب دار بنا کر کہا۔ ”کچھ نہیں“ رکشے والے نے ان کی رعب دار آواز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خوش مزاجی سے جواب دیا۔

”یہ آپ نے غلطی سے مجھے پانچ سو کے بجائے پانچ ہزار کا نوٹ دے دیا تھا، وہی واپس کرنے آیا ہوں“ رکشے والے نے نوٹ ان کے آگے لہرا کر کہا۔ ”یہ لے کر مجھے میرے پانچ سو دے دیجیے، چار سو کرایہ اور سو وہ جو میں نے آپ کو واپس کیے تھے۔“ جب ابرار صاحب اس سے پیسوں کا لین دین کر رہے تھے تو اس نے دھیرے سے کہا ”ساب جی! ہر رکشے والا چور اور بے ایمان نہیں ہوتا، بس غریب ہوتا ہے۔“ ابرار صاحب کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اس رکشے والے سے بھی زیادہ غریب ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Chor aur bad diyanat is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 June 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.