پانی بحران پر پیپلز پارٹی کی سیاسی شعبدہ بازی

سندھ میں آبپاشی کے فرسودہ نظام سے 39 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے

منگل 8 جون 2021

Paani Bohran Per Peoples Party Ki Siyasi Shobda Bazi
آر ایس آئی
پاکستان میں آج کل پانی کا سنگین بحران جاری ہے اور تمام صوبوں کو زراعت اور آبپاشی کیلئے گزشتہ چند برس کی طرح اس مرتبہ بھی 25 سے 30 فیصد تک پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن بعض حلقوں کی جانب سے پورے شدومد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ صوبہ سندھ کو سب سے زیادہ یعنی کم و بیش 18 سے 22 فیصد تک نہری پانی کم دستیاب ہو رہا ہے جبکہ ماہرین زراعت کی جانب سے اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر پری مون سون بارشوں کا آغاز بروقت نہ ہو سکا تو ہر گزرتے دن کے ساتھ پانی کی اس کمی میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

یاد رہے کہ مئی میں چونکہ پاکستان بھر میں گرمی کی شدت میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے لہٰذا دریاؤں میں پانی کم ہونے کی وجہ سے ڈیموں میں موجود پانی کے ذخیرہ میں بھی تیزی کے ساتھ کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے نیز جو پانی ڈیم سے نہروں کو فراہم کیا جاتا ہے اس کا بھی بڑا حصہ سورج کی تیز تپش کے باعث بخارات بن اڑ جاتا ہے اور دور،دراز کے زرعی علاقوں میں پانی کا بہاؤ انتہائی سست ہو جاتا ہے چونکہ یہ ایام ہمارے ملک میں خریف کی فصلوں کے کاشت کے ہوتے ہیں اور پنجاب میں کپاس کی کاشت جبکہ سندھ میں چاول کی بوائی کی جا رہی ہوتی ہے لہٰذا سندھ اور پنجاب کو دیگر صوبوں کی بہ نسبت آبپاشی کے لئے زیادہ پانی درکار ہوتا ہے مگر چونکہ گزشتہ 40 برس میں ان ہی دونوں صوبوں پر حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتیں ملک میں ڈیم بنانے کی بڑی شدت کے ساتھ مخالفت کرتی رہی ہیں اس لئے ملک بھر میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ایک بھی ڈیم نہیں بنایا جا سکا اور اب صورتحال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ پانی کا وافر ذخیرہ نہ ہونے کی وجہ سے ارسا کیلئے ہر صوبہ کیلئے مختص پانی میں سے کٹوتی کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ہر صوبہ کو پانی کی کم فراہمی سراسر انتظامی مجبوری اور تکنیکی مسئلہ ہے مگر آپ داد دیں کہ پیپلز پارٹی کو جس نے پانی پر احتجاجی تحریک شروع کرکے اس خالص تکنیکی اور انتظامی مسئلہ کو بھی کمال مہارت سے ایک سیاسی تنازعہ بنا کر تحریک انصاف کی وفاقی حکومت پر پانی کی کمی ساری ذمہ داری ڈال دی ہے۔

(جاری ہے)


پیپلز پارٹی کی جانب سے پانی کے بحران پر احتجاج کے ذریعے وسیع پیمانے پر پاکستانی عوام میں یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت بطور خاص پانی کے ہتھیار کو صوبہ سندھ کے خلاف ”سیاسی انتقام“ کیلئے استعمال کر رہی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آبپاشی کے پانی کی ملک گیر تقسیم کیلئے برس پہلے اتفاق رائے سے ایک فارمولا طے پا چکا ہے جس کے مطابق ہی ارسا کی جانب سے تمام صوبوں کی نہروں کو ڈیمز سے پانی جاری کیا جاتا ہے،واضح رہے کہ 1991ء میں جب عمران خان کی حکومت تو ایک طرف ان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کا بھی پاکستان کے سیاسی افق پر کوئی نام و نشان نہیں تھا اس وقت چاروں صوبوں نے پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ کیا تھا جس میں ہر صوبہ کا حصہ ہر موسم میں اس کی زرعی ضرورت کے مطابق مقرر کر دیا گیا تھا،حیران کن طور پر پانی کے اس معاہدہ کو ممکن بنانے کے لئے بھی پنجاب نے جھگڑا ختم کرنے کی خاطر اپنے حصہ سے کم پانی پر اتفاق کیا تھا اور آج تک اسی معاہدہ کے مطابق صوبوں کو پانی مہیا کیا جاتا ہے جس کیلئے پانی کی تقسیم کا ذمہ دار ایک خود مختار ادارہ موجود ہے جس کے فیصلوں پر تنہا وفاقی حکومت یا کسی ایک صوبہ کی حکومت کا ذرہ برابر بھی کوئی انتظامی عمل دخل نہیں ہے اس لئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں پنجاب نے کبھی بھی سندھ کے حصے کا پانی نہیں روکا چہ جائکہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سندھ کے پانی میں ”انتظامی ڈنڈی“ یا ”سیاسی ڈنڈا“ مارنے کی کوشش کرے دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ سندھ میں کپاس کی کاشت پنجاب سے پہلے شروع کی جاتی ہے اس لئے گزشتہ چند ماہ سے صوبہ سندھ کو پنجاب سے زیادہ پانی زراعت کیلئے فراہم کیا جا رہا تھا۔

ارسا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ کو دریائے جہلم پر منگلا ڈیم سے بھی 7 لاکھ ایکڑ فٹ پانی دیا گیا نیز سندھ نے بلوچستان کے حصہ کا پانی بھی خود استعمال کر لیا اس لحاظ سے سندھ کو اب تک اپنے حصہ سے صرف 4 فیصد کم پانی ملا ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں پنجاب کو اسی مدت میں اس کے حصہ سے 16 فیصد کم پانی فراہم کیا گیا مگر پنجاب حکومت،پنجاب کی سیاسی جماعتیں یا پنجاب کے کاشتکاروں نے پانی کی اس اضافی کمی پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی کیونکہ شاید ان کے علم میں ہے کہ پانی کی کم یا زیادہ تقسیم مکمل طور پر ایک انتظامی معاملہ ہے جس کا تمام تر انحصار پانی کی ڈیمز میں دستیابی سے مشروط ہے تاکہ سیاست بازی پر لیکن جب گزشتہ چند ہفتوں سے جنوبی پنجاب میں کپاس کی فصل کاشت کرنے کیلئے درکار پانی دینے کی خاطر صوبہ سندھ کے نہری پانی میں معمولی کمی کی گئی تو بلا سوچے سمجھے ہی پیپلز پارٹی کی جانب سے پانی پر سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا گیا۔


ارسا کے مطابق دیگر صوبوں کے مقابلے میں صوبہ سندھ میں دریائی پانی کا سب سے زیادہ یعنی 39 فیصد تک ضیاع ہوتا ہے یہ سارا پانی زمین میں جذب ہو کر یا بخارات میں تبدیل ہو کر ضائع نہیں ہوتا بلکہ اس کا کچھ بڑا حصہ جاگیرداروں کے رقبے کاشت کرنے کی غرض سے چوری کیا جاتا ہے نیز سندھ میں اب تک آبپاشی کے فرسودہ طریقے رائج ہیں اور کھیتوں میں ایک ہی ہلے میں پانی کا سیلاب چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے پانی استعمال کم اور ضائع زیادہ ہوتا ہے۔

ارسا کے مطابق سندھ کے کسان ایک ایکٹر زمین کی کاشتکاری کیلئے 4 فٹ پانی استعمال کرتے ہیں جبکہ پنجاب کے کاشتکار ایک ایکٹر زمین کے لئے تقریباً 2 فٹ پانی استعمال کرتے ہیں۔پنجاب میں زیر کاشت رقبہ سندھ کی نسبت دو گنا ہے لیکن اس کے باوجود اس کو ڈیم کے پانی سے صرف 20 فیصد پانی زائد ملتا ہے۔
سندھ میں پانی کی کمی سے زیادہ بڑا مسئلہ کاشتکاری کے طریقوں میں بہتری اور ترقی لانے کا ہے علاوہ ازیں جہاں ایک طرف عوام کے لئے ضروری ہے کہ وہ پانی احتیاط سے استعمال کریں وہاں حکومت کا بھی فرض ہے کہ مستقبل میں پانی کے کسی بھی بحران سے بچنے کے لئے نئے ڈیمز بہرصورت تعمیر کرے اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی پیشرو سابقہ حکومتوں کے برعکس ملک میں نئے ڈیمز بنانے کے حوالے سے کافی پرعزم دکھائی دیتی ہے اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی 2028ء تک ملک میں مہمند اور بھاشا ڈیم سمیت 10 ڈیم مکمل کر لینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

عمران خان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ”پاکستان میں ڈیم تو 50 برس پہلے ہی بن جانے چاہئیں تھے اور اس وقت ملک میں تربیلا اور منگلا ڈیم جیسے کئی ڈیمز موجود ہوتے تو ملک کو پانی کے سنگین بحران کا سامنا ہی نہ ہوتا”بہرحال دیر آید،درست آید کے مصداق ماضی کا ماتم کرنے کے بجائے بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر تمام صوبوں کے تحفظات دور کرکے انہیں اتفاق رائے پر آمادہ کرنے کی مخلصانہ سیاسی کوششوں کی طرف قدم بڑھائے جائیں تاکہ پانی کی دستیابی کے حوالے سے ہم اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Paani Bohran Per Peoples Party Ki Siyasi Shobda Bazi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 June 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.