کمانڈو کی واپسی

نواز شریف نے کرسی کیلئے” زرداری فارمولا“ اپنا لیا

پیر 28 مارچ 2016

Comando Ki Wapsi
ایس بی ایس:
سیاسی حلقوں میں بہت پہلے سے کہا جارہا تھا کہ یہ ممکن نہیں ملک میں آپریشن ضرب عضب بھی ہواور سابق آرمی چیف کو سزابھی سنائی جائے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف عام انتخابات سے قبل کئی امیدیں لئے پاکستان آئے تھے۔ سوشل میڈیا پر ان کے پارٹی عہدے اداروں کے بنائے جعلی اکاؤنٹس اور جعلی ممبر سازی کے خود ساختہ رجسٹردکھا کر مفادات حاصل کرنیوالوں نے انہیں ” عوامی حمایت“ کایقین دلا رکھا تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ پرویز مشرف کے پاکستان آنے پر ہی” وفادار دوسری جماعتوں میں شامل ہوگئے۔سیاسی حوالے سے پاکستان آکر پرویز مشرف کو مایوسی کاسامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف ان کے وفادار“ عین جنگ کے میدان میں پلٹ گئے تو دوسری طرف انہیں عدالتی کارروائیوں کے ذریعے گھیرلیا گیا۔

(جاری ہے)

پرویز مشرف نے انتہائی طاقتور صدر کے طور پر جس ملک پر بلاشرکت غیرے حکومت کی تھی اس ملک کی عدالتوں میں انہیں بطور ملزم پیش کیا گیا اور پھر نظر بند کردیا گیا۔

پرویز مشرف عدالتی کارروائی کے دوران اپنی والدہ کی عیادت کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت مانگتے رہے لیکن عین وقت پر عدالت لے جاتے ہوئے ہسپتال بھی منتقل کرنا پڑا جس پر کئی باتیں سنائی دیتی رہیں۔ والدہ کی عیادت کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت نہ ملی تو کچھ ہی عرصہ بعد کماونڈ خود بیمار ہوگئے۔پاکستان آنے کے بعد جس طرح ان کے ” وفاداروں“ نے انہیں عدالتی جنگ لڑنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا اس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی۔

پریشان حال مشرف اب ہر صورت باہر جانا چاہتے تھے۔عجیب اتفاق تھاکہ ان کے معالج بھی ان کے علاج کیلئے نسخہ میں ” بیرون ملک روانگی“ ہی لکھ رہے تھے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس مسئلہ میں براہ راست اُلجھنے اور اپنے لئے مزید مسائل پیدا کرنے کی بجائے عدلیہ کے کندھوں پر بندوق رکھ کر فائر کرنا چاہتی تھی۔ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت یہاں تک کہہ چکی تھی کہ اس نے ذاتی طور پر مشرف سے ” انتقام“ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے البتہ ان سے ” جرائم“ پر عدلیہ جو فیصلہ سنائے گی وہی حمتی ہوگا۔

یہ بات تو سیاسی حلقوں میں گونجتی رہی ہے کہ اقتدار ختم ہونے کے بعد پروزمشرف سولاکھ کے ہوچکے ہیں۔گزشتہ دنوں عدلیہ نے بھی اس سلسلے میں فیصلہ سنادیا۔ عدلیہ کاکہنا تھا کہ پرویز مشرف کے ملک میں رہنے یاباہر جانے کا فیصلہ حکومت خود کرے عدلیہ کی جانب سے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ عدالت کے فیصلے سے قبل سوشل میڈیا پر پرویزمشرف کی ہسپتال کے لباس میں تصاویر گردش کررہی تھیں لیکن عدالتی فیصلہ آتے ہی کمانڈو دوبارہ جوان ہوگیا۔

پرویز مشرف تمام تر علاج اور بیماری کے باوجود راتوں رات بیرون ملک روانہ ہوگئے۔ ان کے پاکستان سے جاتے ہی ان کی شدید نوعیت کامرض بھی کافی حد تک ٹھیک ہوگیا۔ پرویز مشرف نے دبئی جاتے ہی طبّی معائنہ مئوخر کردیا اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ نہوں نے پارٹی اجلاس کی صدارت کی اور کارکنوں کو سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کا کہا۔ پرویز مشرف کاکہنا تھا کہ وہ اب بہتر محسوس کررہے ہیں اور جلد ہی چیک اپ کروائیں گے ۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ صحت یاب ہوکر پاکستان چلے جائیں گے لیکن اس بیان کے ساتھ ہی یاد آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی اس طرح اچانک” علاج“ کیلئے بیرون ملک روانہ ہوگئے تھے اور تاحال ” ٹھیک“ نہیں ہوئے۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے لیکن اہم سیاسی جماعتوں کے ” ہیڈ آفس“ بیرونی ممالک سے چلائے جارہے ہیں۔

پرویز مشرف بھی اپنی سرگرمیاں بیرون ملک سے ” ہینڈل“ کریں گے۔ ایم کیوا یم کے سربراہ بھی طویل عرصہ سے لندن سے پارٹی کنٹرول کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری بھی بیرون ملک سے پارٹی معاملات چلارہے ہیں۔ طاہر القادری بھی بیرون ملک سے پارٹی کواحکامات دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہے۔ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی پر بھی پوائنٹ اسکو رنگ شروع ہوچکی ہے۔

بلاول زرداری کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے اس پر احتجاج بھی کی جارہا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت بھی شاید یہ ” راز“ جان گئی ہے کہ عوام صرف زمانہ حال کے بیانات پر توجہ دیتے ہیں ورنہ سچ یہ ہے کہ جو پیپلزپارٹی آج پرویز مشرف کوبیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر سرایا احتجاج ہے ۔ اس پیپلزپارٹی کے دور میں انہی پرویز مشرف کو گارڈ آف آنردے کر بیرون ملک بھیجا گیا تھا۔

اہم حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ پرویز مشرف کاجانا ٹھہرگیاتھا۔ اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن سبھی کو علم ہوچکا تھا کہ پرویز مشرف کو زیادہ عرصہ روکا نہیں جاسکتا ۔ البتہ اب لکیر پیٹنے میں سبھی آگے آگے نظر آرہے ہیں۔ آصف زرداری نے پرویز مشرف کو بیرون ملک بھیج کر اپنا اقتدار مضبوط کرلیا تھا۔ لگتا ہے وزیراعظم نے بھی اس فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ” کمانڈو“ کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے کر اپنا اقتدار مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ پس منظر میں ایک اور کہانی بھی سنائی دے رہی ہے۔ لیکن اس کے خدوخال اگلے چند ہفتوں میں ہونیوالی تبدیلیوں کے ساتھ ہی واضح ہوتے چلے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Comando Ki Wapsi is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 March 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.