خواتین کے لئے آسان سفری سہولیات کیسے ممکن ہو

الگ بسیں چلانے کا حکومتی منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا

جمعرات 28 جنوری 2021

Khawateen Ke Liye Asaan Safri Saholiyat Kaise Mumkin Ho
نور الصباح ہاشمی
خواتین جو ملک کی نصف آبادی کا حصہ ہیں۔انہیں ہر دور میں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ٹرانسپورٹ سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں مسلسل امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔عورت کیلئے صنف نازک کی اصطلاح صرف باتوں تک محدود ہے۔درحقیقت اس کے نازک و ناتواں کندھوں پر مسائل کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔پاکستانی عورت مسلسل حالات کی چکی میں پس رہی ہے اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔

اگر بوجہ مجبوری اپنے خاندان کی کفالت کیلئے گھر سے باہر نکلے تو اسے مردوں کی غلیظ نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سکول،کالج،دفتر اور کام والی جگہ پر پہنچنے کیلئے گویا اسے روزانہ ایک پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔سب سے کٹھن مرحلہ ویگنوں،بسوں میں دھکے کھانا ہے۔اگرچہ میٹرو بسیں، سپیڈو نے خواتین کی سفری مشکلات کو کسی حد تک کم کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن ابھی ٹرانسپورٹ کے شعبے میں مزید منصوبوں کی ضرورت ہے تاکہ خواتین ان سے مستفید ہوں اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا ہاتھ بٹا سکیں۔


ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں،طویل تمہیدیں باندھی جاتی ہیں، بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں کہ ملکی آبادی کے نصف حصے کو فلاں فلاں سہولیات پہنچانے کیلئے پراجیکٹس بنائے جائیں گے جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں کے پھیلاؤں نے اس مسئلے کو اور بھی گھمبیر بنا دیا ہے۔ آپ صرف لاہور کی ہی مثال لے لیں۔

کسی دور میں دریائے راوی کے کنارے کو اس کی باؤنڈری تسلیم کیا جاتا تھا۔مگر جیسے جیسے انسانی مسائل میں اضافہ ہوا،آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے نئی نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائی گئی اور اب لاہور بہت پھیل چکا ہے۔اس لحاظ سے خواتین بالخصوص طالبات اور ملازمت پیشہ عورتوں کیلئے بہترین سفری سہولیات بھی ناگزیر ہو چکی ہیں اگر وہ نواحی علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور ان کا تعلیمی ادارہ یا دفتر شہر کے وسط میں ہے تو وہاں تک پہنچنے کیلئے دو دو بسوں کو بدلنا پڑتا ہے۔

بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں بسیں نہیں جاتیں۔مجبوراً طالبات و خواتین کو چنگ چی رکشے میں سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔جہاں ہماری خواتین سماجی و ثقافتی روایات میں جکڑی پہلے ہی گھروں سے کم باہر نکلتی ہیں اور سفری اخراجات میں اضافے اور سہولیات کی کمی نے ان کی دشواریوں کو کم کرنے کے بجائے اور بھی مشکل ترین بنا دیا ہے۔

اس میں کسی بھی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ کسی بھی ملک کی پائیدار ترقی کا دارومدار مرد و خواتین دونوں کی معاشی و سماجی ترقی میں منحصر ہے۔ خواتین جو ملک کی نصف آبادی پر مشتمل ہے ان کے مسائل کو یوں نظر انداز کیا جاتا رہا تو پھر مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ درحقیقت خواتین کے آگے بڑھنے میں ٹرانسپورٹ اور بڑھتے ہوئے اخراجات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

بلاشبہ خواتین کیلئے آسان سفری سہولیات کی فراہمی کسی بھی ملک اور معاشرے کیلئے معاشی سرگرمیوں میں بہتری اور اضافے کا باعث ہو سکتا ہے۔
خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں خواتین کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال ایک سنگین مشکل مرحلہ ہوتا ہے وہاں اس کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ہماری حکومت اور معاشرے دونوں کو چاہیے کہ خواتین اور لڑکیوں کیلئے آسان سفری سہولیات یقینی بنائیں کیونکہ یہ موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے خاتمے کیلئے یہ لازم ہے کہ مرد اور عورت دونوں اپنا کردار با آسانی ادا کریں اور اسی صورت ممکن ہو گا جب خواتین کیلئے سفر کرنا اور پبلک مقامات تک رسائی آسان ہو گی۔ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی، ٹریفک کے اژدھام کی موجودہ صورتحال خواتین کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شہروں میں مقیم لوگوں کو روزمرہ زندگی کی تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں جو کہ سراسر غلط ہے شہروں میں بھی خواتین کا اکیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ آزادانہ گھومنا پھرنا قطعاً آسان نہیں اگرچہ آج خواتین خواہ تعلیم ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی کسی بھی طور پر مردوں سے پیچھے نہیں رہیں مگر ان کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں اور مسائل حائل ہیں جن پر قابو پانا حکومت اور سرمایہ دار طبقے کی مشترکہ ذمہ داری ہیں۔

روزمرہ زندگی میں خواتین کو درپیش تعلیم،صحت اور روزگار کے مسائل کا ایک انبار لگا ہوا ہے اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کا مسئلے کا کیا ذکر کیا جائے اس کی صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔
ہمارے ہاں کسی لڑکی کا اکیلے گھر سے باہر جانا ویسے بھی محفوظ نہیں سمجھا جاتا کیونکہ جونہی لڑکی گھر سے باہر نکلتی ہے اسے لوگوں کے ناخوشگوار اور غیر مہذب رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں اکثر بس کے انتظار میں گھنٹوں سٹاپ پر کھڑا ہونا پڑتا ہے تو اردگرد موجود مرد گھورتے ہیں اور کئی تو آکر کوئی نہ کوئی جملہ کس دیتے ہیں،اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو یہ قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہیں۔

حفظ حقوق نسواں کا بل پاس ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے،مگر اس سے خواتین کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے،نہ تشدد اور نا انصافی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے سے محفوظ رکھنے کا ایکٹ،نام نہاد رسم و رواج کے خاتمے کا قانون، تیزاب پھینکنے کی روک تھام،نیشنل کمیشن آن اسٹیس آف ویمن کو با اختیار بنانے کا قانون،قیدی عورتوں کی فلاح و بہبود جیسے اہم قوانین پاس کئے گئے تھے لیکن ان میں سے ایک بھی قوانین پر اب تک عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔

ہر شعبے میں مرد اور عورت کے درمیان صنفی امتیاز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔کوئی بھی معاشرہ خواتین کی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھائے بغیر ترقی نہیں کر سکتا،اس لئے ان کو بہتر مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔کسی قوم کی حالت کا صحیح اندازہ اس قوم کی عورتوں کی حالت سے لگایا جا سکتا ہے۔ خواتین کو ایسے مواقع فراہم کئے جائیں ،جس میں وہ اپنی تعلیم،توانائی اور مہارت کو مرد حضرات کے ساتھ مل کر ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم پیشرفت کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Khawateen Ke Liye Asaan Safri Saholiyat Kaise Mumkin Ho is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.