صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا

سیاست سے مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو گئی

بدھ 2 فروری 2022

Sobon Ko Ikhtiyarat Aur Wasail Ki Munsifana Taqseem Waqt Ka Taqaza
رحمت خان وردگ
70ء کی دہائی کے بعد سے سیاست پر جاگیرداروں اور صنعت کاروں کا مکمل قبضہ ہے اور دولت کا عنصر اس قدر حاوی ہو چکا ہے کہ عام آدمی کے لئے کونسلر کی نشست جیتنا بھی ممکن نہیں رہا اور ملک کا اقتدار مکمل طور پر دولت مندوں کے قبضے میں آ چکا ہے۔سابقہ ہوں یا موجودہ تمام حکمران سیاسی جماعتیں دولت کے بل بوتے پر سیاست کر رہی ہیں یہ بات طے شدہ ہے کہ موجودہ نظام کی موجودگی میں ہارس ٹریڈنگ سمیت اکثریت مسائل کا حل ممکن ہی نہیں۔

انتخابی نظام میں اصلاحات کرکے سب سے پہلے تو ہر سیاسی جماعت کو پارٹی الیکشن کا پابند کیا جائے اور انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرائے جائیں جس سے کوئی ووٹ ضائع نہیں ہو گا اور ملک بھر میں ہر پارٹی کو اس کی مقبولیت کے مطابق نمائندگی ملے گی،متناسب نمائندگی میں دولت کا عنصر سیاست پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا اور ہر پارٹی کے منشور کو ووٹ ملے گا اور ہر پارٹی انتخابات سے قبل اپنے امیدواروں کی لسٹ شائع کرے گی اور انتخابات سے دولت کا عمل دخل مکمل طور پر ختم ہو سکے گا موجودہ ہر صوبائی اسمبلی کی نشست کے ایریا کو قومی اسمبلی کی نشست قرار دیا جائے اور ہر قومی اسمبلی کی نشست میں 2 صوبائی اسمبلی کی نشستیں بنائی جائیں تاکہ عوام اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی پا سکیں۔

(جاری ہے)


سیاست پر دولت مندوں کا مکمل قبضہ ہے،مخصوص خاندان ملک بھر کے ایوان اقتدار پر قابض ہیں اور یہی مخصوص خاندان ہر حکومت میں لبادہ تبدیل کرکے شامل رہتے ہیں اور ان کا مقصد صرف اپنی دولت کا تحفظ ہوتا ہے۔تھانے اور پٹوار خانے پر ان خاندانوں کا مکمل قبضہ ہونے کی وجہ سے یہی مخصوص طبقہ قومی اثاثے اپنے من پسند افراد کو اونے پونے داموں فروخت کرکے لوٹ مار میں مصروف رہتے ہیں ان مخصوص خاندانوں کا مقابلہ کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے اور نظام کی تبدیلی سے ہی سیاست سے دولت کا عنصر ختم کیا جا سکتا ہے۔

ملک بھر میں برطانیہ کی طرز کا بلدیاتی نظام رائج کرکے ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل اور تکمیل بلدیاتی نمائندوں کی ذمہ داری ہو البتہ مقامی ترقیاتی بورڈ میں اس علاقے کے اراکین اسمبلی اور ڈپٹی کمشنرز بھی ممبر ہوں اور ترقیاتی فنڈز ڈپٹی کمشنر کے ذریعے بلدیاتی نمائندوں کی ہدایت کے مطابق خرچ ہوں اس وقت بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندوں کو اختیارات حاصل نہیں ہیں۔


بلدیاتی انتخابات ہر حالت میں مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں اور بلدیاتی اداروں کی مدت 4 سال ہونی چاہئے۔برطانیہ طرز کا نظام ہی بنیادی عوامی مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے یہی نظام ملک بھر میں یکساں نافذ کرکے تمام ناظمین کا براہ راست انتخاب ہونا چاہئے۔ بلدیاتی نظام کو ایسا آئینی تحفظ دیا جائے کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود بلدیاتی نمائندے بااختیار رہ کر اپنی آئینی مدت ہر صورت پوری کریں اور اس نظام کو وفاقی و صوبائی حکومت نہ چھیڑ سکے۔

اپوزیشن اور حکومت مل کر متفقہ آئینی ترمیم کے ذریعے بلدیاتی نظام کو مکمل تحفظ بھی دیں اور بروقت انتخابات ہونے چاہئیں۔وطن عزیز میں انتخابی،عدالتی اور انتظامی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے لہٰذا موجودہ نظام میں رہتے ہوئے عوام کو ریلیف نہیں مل سکتا اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو ملک کے ہر ڈویژن کو انتظامی صوبہ بنایا جائے۔سندھ، پنجاب اور کے پی اور بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے فی ایک کروڑ آبادی کو ایک انتظامی صوبہ بنایا جائے اور انتظامی صوبوں کا نام لسانی بنیاد پر نہ ہو کیونکہ صوبوں کے نام لسانی بنیادوں پر ہونے کی وجہ سے ہم بدقسمتی سے اب تک ایک قوم نہیں بن پائے ہر ایک کروڑ کی آبادی کو انتظامی صوبہ بنا کر وہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بنچ کا قیام عمل میں لایا جائے اور ججوں کی تعداد دوگنی کر دی جائے تاکہ عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف مل سکے اور قانون سازی کرکے دیوانی مقدمات ایک سال اور فوجداری مقدمات 6 ماہ اور نیب کے مقدمات کا فیصلہ بھی ایک سال میں ہو جانا چاہئے اور جب تک ملزم عدالت میں باقاعدہ ”مجرم“ ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک اس کی گرفتاری کسی صورت نہیں ہونی چاہئے۔

ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی اپیل پر 3 ماہ میں فیصلہ کر دیں۔انصاف میں تاخیر بھی ایک جرم ہے،ہر یونین کونسل کی سطح پر مجسٹریٹ عدالتیں قائم کی جائیں ہر انتظامی صوبہ کو آبادی کے تناسب سے وفاق کی جانب سے براہ براست ترقیاتی فنڈز ملنے چاہئیں اس وقت عدالتی نظام ایسا ہے کہ لوگ دور دراز دیہات سے ہائی کورٹ میں پیشی کے لئے سینکڑوں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے کئی گھنٹوں بعد جب عدالت پہنچتے ہیں تو ان کے کیس کاز لسٹ میں آخری نمبروں پر ہونے کی وجہ سے کیس کی شنوائی ہوئے بغیر اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے۔


قومی معاملات اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے تمام جماعتوں کو یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے مسودے پر دستخط کرنا ہوں گے جس سے فوری طور پر ملک میں انتظامی‘عدالتی اور بلدیاتی نظام تبدیل ہو سکے اس وقت جو بلدیاتی نظام رائج ہے وہ آدھا تیتر‘آدھا بٹیر ہے۔ اختیارات و وسائل بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہوں اور ان کے ایم این اے‘ایم پی اے و سینٹرز میونسپل کارپوریشن‘ڈسٹرکٹ کونسل و تحصیل کونسل کے ممبر ہوں اور مقامی طور پر تمام ترقیاتی کاموں کی منظوری مقامی حکومتوں کے ذمہ ہو جس کے فنڈز کا استعمال مقامی ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے ہونا چاہئے۔

کراچی،لاہور،ملتان،بہاولپور،فیصل آباد،ڈیرہ غازی خان،ڈیرہ اسماعیل خان،سرگودھا،بنوں،پشاور،مردان،ایبٹ آباد سمیت بڑے شہروں کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا جائے اور اسی تناسب سے انہیں فنڈز کی فراہمی ممکن بنائی جائے تاکہ بڑے شہروں کے مسائل حل ہو سکیں صرف کراچی ہی نہیں بلکہ اس وقت ملک کے تمام بڑے شہر مسائل کی آماج گاہ بن چکے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی بھی عوام کو میسر نہیں اور سیوریج‘صفائی ستھرائی کے گھمبیر مسائل ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں وسیع ترین قومی مفاد میں بلدیاتی‘ انتخابی‘انتظامی اور عدالتی نظام میں تبدیلی کے لئے ایک میز پر بیٹھیں اور ایسا مسودہ متفقہ طور پر منظور کریں جس سے نظام تبدیل ہو اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں‘عوام کو سستا اور فوری انصاف مل سکے اور وزیر اعظم عمران خان نے شفاف ووٹنگ کے لئے جن تبدیلیوں کا عزم کیا ہے اس کے لئے تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ بیٹھ کر ایسا نظام متعارف کرائیں کہ ملک میں شفاف ترین انتخابات ہوں اور ہارنے والے بھی نتائج کو تسلیم کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sobon Ko Ikhtiyarat Aur Wasail Ki Munsifana Taqseem Waqt Ka Taqaza is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 February 2022 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.