2 ارب سے زائد خواتین صنفی عدم مساوات کا شکار

کورونا کے بعد عورتیں ظلم و تشدد کی چکی میں زیادہ پسنے لگیں

ہفتہ 8 جنوری 2022

2 Arab Se Zaid Khawateen Sanfi Adam Musawat Ka Shikar
بشریٰ شیخ
اقوام متحدہ کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وباء کی وجہ سے نافذ پابندیوں کے باعث دنیا بھر میں مہاجر و گھریلو خواتین کو تشدد اور دیگر نا انصافیوں کا سامنا ہے۔عالمی ادارہ،منصف اور اس کے اداروں کی حالیہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس کے اوائل میں،جب سے کورونا وباء پھوٹی ہے،ہر تین میں سے ایک خاتون خود یا پھر اس کی کوئی جاننے والی خاتون کو تشدد کا شکار ہونا پڑا ہے۔

یہ رپورٹ 13 ممالک کے جائزے کے بعد مرتب کی گئی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وباء کے اثرات بالخصوص معاشی و سماجی مسائل کے نتیجے میں خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا ہی پڑا،اس کے علاوہ انھیں عدم تحفظ کا احساس بھی لاحق ہوا،الغرضیکہ خواتین بحیثیت مجموعی متاثر ہوئیں۔

(جاری ہے)

تشدد کرنے والا اس کا موجودہ یا سابقہ شوہر،دوست تھا۔یاد رہے کہ اس رپورٹ میں جن لڑکیوں اور خواتین کا جائزہ لیا گیا،ان کی عمر پندرہ برس یا اس سے زائد تھی۔

اس باب میں سب سے زیادہ خطرناک صورت حال افغانستان میں دیکھنے کو ملی جہاں 34 فیصد لڑکیوں یا خواتین کو ان کے شوہروں نے مارا پیٹا۔10 میں سے پانچ ممالک،جہاں لڑکیاں اور خواتین سب سے زیادہ تشدد کا نشانہ بنتی ہیں،کا تعلق براعظم افریقہ سے ہے۔کانگو میں 32 فیصد لڑکیوں اور خواتین پر،ان کے شوہروں یا دوستوں نے تشدد کیا۔
رپورٹ کے مطابق ہر 10 میں سے سات خواتین کا کہنا ہے کہ کورونا وباء کے بعد گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

وہ گھروں میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔گھر میں مار پیٹ میں اضافہ ہوا۔اگر گھر میں مردوں کے درمیان لڑائی بھی ہو تو اس کی زد میں گھر کی خواتین بھی آتی ہیں۔ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر پانچ میں سے تین خواتین کا کہنا تھا کہ مہلک وائرس کے بعد انھیں پہلے کی نسبت زیادہ جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔نتیجتاً وہ روزگار اور دیگر ضروری کاموں کے لئے گھر سے باہر جاتے ہوئے خوفزدہ رہنے لگیں۔

حتیٰ کہ وہ تفریح کی غرض سے بھی گھر سے باہر نکلنے سے پہلے 100 بار سوچنے لگیں۔اس کا نتیجہ صحت پر برے اثرات کی صورت میں نکلا۔58 فیصد خواتین، جنھیں جنسی تشدد کا نشانہ بننا پڑا یا ان کی کسی جاننے والی خاتون کے ساتھ ایسا کچھ ہوا،ایسی ہر پانچ میں سے دو خواتین کی نفسیاتی اور جذباتی صحت پر برے اثرات مرتب ہوئے۔وہ دیگر خواتین کی نسبت 1.3 بار زیادہ معالجین کے پاس گئیں۔


واضح رہے کہ یہ جائزہ اپریل سے ستمبر 2021ء کے دوران میں لیا گیا۔ایشیا میں سالانہ 20 ہزار،افریقہ میں 19 ہزار،امریکہ میں 8 ہزار،یورپ میں 3 ہزار اور بحرالکاہل یا اس سے جڑے سمندروں کے جزیروں (اوشینیا) میں 300 خواتین قتل ہوتی ہیں۔افریقہ میں ہر ایک لاکھ خواتین میں 3.1 خواتین،امریکہ میں 1.6،ایشیا میں 0.9،یورپ میں 0.7 اور اوشینیا میں 1.3 خواتین قتل ہوتی ہیں۔

جبکہ انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور لڑکیوں ہی کی ہے۔خواتین کی شرح 46 فیصد اور لڑکیوں کی شرح 19 فیصد ہے۔اقوام متحدہ کے ایک ادارے’ویمن کاؤنٹ‘ نے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد ختم کرنے کیلئے خواتین کو ان اداروں میں شامل کرنا ضروری ہے جو خواتین پر تشدد کے انسداد کیلئے کوششیں کر رہے ہیں،انھیں اس حوالے سے پالیسی سازی میں بھی شامل کیا جائے۔

انسداد تشدد کیلئے مصروف عمل لوگوں کو مزید وسائل فراہم کیے جائیں۔
برطانیہ میں ہزاروں ایسی خواتین کو حکام کی جانب سے قانونی مدد فراہم نہیں کی جاتی جو شوہروں کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں انہیں برطانیہ کی رہائشی نہ ہونے کی وجہ سے اس امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسی خواتین میں سے اکثر باقاعدہ یورپی یونین ممالک کی شہری ہونے کے باوجود پناہ گاہوں میں داخل ہونے سے روکی جاتی ہیں وہ اس بات پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ یا تو خانہ بدوش اور بے گھر ہو کے رہیں یا پھر اسی ظلم و تشدد کے ماحول میں واپس جا کے رہنا ان کیلئے موجود واحد راستہ ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں دو ارب سے زائد خواتین اور لڑکیوں کو صنفی عدم مساوات کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مردوں کی بڑی تعداد خواتین اسے تعصبانہ رویے کی حامل ہے اور وہ ممالک جنہوں نے یو این او کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں کہ 2030ء تک صنفی مساوات کو حاصل کر لیا جائے گا،اُن میں سے نصف منصوبے پر عملدرآمد میں اب تک پیچھے ہیں۔


رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ تقریباً تیس فیصد مرد اب بھی اپنی بیویوں کو مارنے کو صحیح قرار دیتے ہیں۔کئی ممالک میں خواتین کو شدید متعصبانہ رویے کا سامنا ہے اور بظاہر معاشرتی اور حکومتی سطح پر خاطر خواہ اقدامات بھی ناکافی دکھائی دیتے ہیں۔ایسا امکان بہت ہی کم ہے کہ موجودہ انسانی نسل وہ ماحول دیکھ سکے جس میں مرد اور عورت کو برابری کا مقام حاصل ہو۔

یہ امر اہم ہے کہ ستمبر 2015ء میں اقوام عالم کے لیڈروں نے پائیدار ترقی کے اہداف میں یہ شمار کیا تھا کہ دنیا کو غربت اور انصاف کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ صنفی مساوات کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔بقیہ اہداف میں تعلیم،روزگار کے ذرائع،نکاسی آب،انصاف اور امن شامل ہیں۔جبکہ اسی تناظر میں گھریلو تشدد اور کام کے مقام پر کسی خاتون کے استحصال کا عمل بدستور جاری ہے۔چنانچہ دنیا بھر میں خواتین کی جانب سے کام کے مقام پر برابری کے سلوک کے مطالبات اور جنسی عدم مساوات کے خلاف بڑھتے جوش کے باوجود صنف کی بنیاد پر موجود فرق کے خاتمے کیلئے کئی صدیاں درکار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

2 Arab Se Zaid Khawateen Sanfi Adam Musawat Ka Shikar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 January 2022 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.