بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
پیپلز پارٹی کی حکومت کو جمہوری اقدار کے تحفظ کیلئے ڈکٹیٹرشپ والے روئیے سے گریز کرنا ہو گا
ہفتہ 29 جنوری 2022
سندھ اسمبلی میں بلدیاتی نظام کا قانون منظور کیا گیا جس پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اعتراض کرتے ہوئے احتجاج کیا۔جماعت اسلامی کراچی میں انتہائی اہم حیثیت کی حامل جماعت ہے جس کے ماضی میں دو بار سٹی میئر/ ناظم بن چکے ہیں۔پہلے ضیاء الحق کے دور حکومت میں عبدالستار افغانی مرحوم میئر کراچی بنے اور پھر جنرل مشرف کے دور حکومت میں نعمت اللہ مرحوم کراچی کے ناظم بنے۔جماعت اسلامی نے بلدیاتی نظام میں تبدیلی کی خاطر کئی روز سے سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے اور اب سندھ حکومت کے وزراء نے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات کرکے مشترکہ کمیٹی تشکیل دی ہے اور پیپلز پارٹی کے وزراء نے جماعت اسلامی سے دھرنا موٴخر کرنے کی درخواست کی جس پر جماعت اسلامی نے دھرنا جاری رکھ کر مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کی ہے۔
(جاری ہے)
خیبر پختونخواہ میں اگر ناظمین کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہوا ہے اور عوام نے اپنے نمائندے خود منتخب کئے ہیں تو ایسا سندھ میں کیوں نہیں ہو سکتا؟میرے خیال میں کچھ لوگ جان بوجھ کر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس معاملے میں غلط آگاہی دے کر پارٹی کو بدنام کر رہے ہیں اگر سندھ میں بھی ناظمین کا براہ راست عوام کے ووٹوں سے انتخاب ہو اور ناظمین بااختیار ہوں تو اس سے پیپلز پارٹی کو ہی فائدہ ہو گا۔سندھ بھر میں ان کے بااختیار ناظمین ہی لوگوں کی خدمت کرکے پارٹی کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔سندھ بھر میں بااختیار ناظمین بیوروکریسی کی محتاجی کے بغیر آزادی سے کام کر سکیں گے اور اس سے پیپلز پارٹی کو دور رس فوائد حاصل ہوں گے یہاں سیاست و جمہوریت کو دولت کے ہاتھوں محصور کر دیا گیا ہے اور سیاست پر چند خاندانوں نے اپنا گہرا قبضہ جمایا ہوا ہے اور اس مخصوص حصار سے کسی بھی طور پر اختیارات‘اقتدار اور وسائل کو نکلنے نہیں دیا جا رہا۔
دنیا بھر میں کامیاب ترین طرز حکومت مقامی حکومتوں کا نظام ہے جس کے تحت ضلع‘تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر نمائندے منتخب کرکے عوام کے اکثریت مسائل کو ان کی دہلیز پر حل کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور اختیارات کو انتہائی نچلی سطح تک منصفانہ تقسیم سے وفاقی و صوبائی حکومتیں بہت سے مسائل سے آزاد رہتی ہیں۔بلدیاتی نظام فعال کرنے سے ترقیاتی فنڈز اور کئی اختیارات نچلی سطح پر تفویض کرنا پڑتے اور ان پارٹیوں کے ایم پی اے‘ایم این اے اور سینیٹرز کو مخصوص ”ترقیاتی فنڈ“ نہیں مل پاتا یہاں اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ ایم این اے‘ایم پی اے اور سینیٹرز کے ترقیاتی فنڈ میں قانونی طور پر بھی فنڈ کا 10 فیصد متعلقہ رکن اسمبلی کو کمیشن ملتا ہے مگر میرے خیال میں کوئی بہت ہی سادہ اور قناعت پسند سیاستدان ہی ہو گا جو اس 10 فیصد کمیشن پر اکتفا کرے کیونکہ یہاں تو اپنے ترقیاتی فنڈز کا 50-60 فیصد کا طریقہ کار رائج ہے اور اس کے علاوہ سرکاری افسران‘ایکس ای این و متعلقہ سرکاری عملہ بھی کم و بیش 15-20 فیصد حصہ لیتا ہے یعنی اس طریقہ کار کے تحت ترقیاتی فنڈ کا 30 فیصد تک بمشکل منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے اور اس قدر بھاری کمیشن کے بعد ٹھیکیدار کس معیار کا کام کرے گا؟
اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جب سیاستدانوں کے منہ کو یہ ترقیاتی فنڈز کا کمیشن لگا ہو تو اس صورتحال میں کونسا شریف انسان آمدنی کا یہ سنہرا ذریعہ کسی اور کو تفویض کرنے کی حمایت کر سکتا ہے۔جمہوریت کی علمبردار بڑی سیاسی جماعتیں کہنے کو تو جمہوریت رائج کرنا چاہتی ہیں مگر عملی طور پر جمہوری ڈکٹیٹرشپ رائج ہے۔بڑی سیاسی جماعتیں اپنا پارٹی الیکشن ہی نہیں کراتی بلکہ پارٹیوں کو اپنی ذاتی جاگیر کے طور پر چلایا جا رہا ہے تو یہ لوگ ملک میں حقیقی جمہوریت کس طرح رائج کر سکتے ہیں؟جنرل پرویز مشرف بے شک فوجی حکمران تھے مگر انہوں نے اپنے دور اقتدار میں باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے اور ملک بھر میں اختیارات کو ضلع‘تحصیل اور یونین کونسل کو تفویض کیا ان کے دور حکومت میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے اور کسی ایم این اے‘ایم پی اے یا سینیٹرز کو ترقیاتی فنڈ نہیں دیا گیا بلکہ ترقیاتی فنڈز کا استعمال مقامی حکومتوں کے ذریعے کیا گیا جس سے ملک میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوا اور عوام کافی حد تک مطمئن تھے۔جنرل مشرف کے دور میں ہی اس قدر فعال بلدیاتی نظام تھا کہ کراچی کے ناظم کو ایشیاء کے بہترین ناظم کا ایوارڈ ملا۔
صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ اپنے زیادہ تر اختیارات و وسائل کی نچلی سطح پر منصفانہ تقسیم کرکے خود دیگر اہم امور کی جانب توجہ مرکوز کرے اور قومی سطح پر پالیسیوں کی تشکیل و عملدرآمد کی جانب زیادہ لگن سے کام ہونا چاہئے۔میڈیا کو چاہئے کہ بلدیاتی انتخابات کے جلد از جلد انعقاد کے لئے بھرپور میڈیا مہم چلائے اور وفاق و صوبوں میں براجمان سیاسی جماعتوں سے جواب طلبی کرنے کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم میں کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کے بارے میں دریافت کیا جائے۔بلدیاتی انتخابات کا جلد از جلد انعقاد ہی عوام کے مسائل میں نمایاں کمی کا ضامن بن سکتا ہے اس کے علاوہ ایم این اے‘ایم پی اے اور سینیٹرز کے ترقیاتی فنڈز پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہئے اور سارا ترقیاتی فنڈ بلدیاتی حکومتوں کے ذریعے استعمال کیا جائے البتہ ہر ضلع و تحصیل کے ترقیاتی بورڈ میں مقامی ایم این اے‘ایم پی اے اور سینیٹرز کو شامل کیا جائے اور یہ بورڈ صرف مقامی ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دے کر ان کی نگرانی کرنے کا مجاز ہو۔ترقیاتی منصوبوں میں استعمال ہونے والے تمام فنڈز کے اجراء و استعمال کا اختیار مقامی ڈی سی او‘ڈپٹی کمشنرز کو ہونا چاہئے۔
اس نظام سے ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کی معیاری تکمیل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔کراچی جیسے میگا سٹی کی حالت زار یہ ہے کہ جس علاقے کی جانب سفر کے لئے نکلیں تو سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔نئے منصوبوں کا آغاز تو درکنار گزشتہ مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت بننے والے منصوبوں کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بھی سڑکیں اور پل خستہ حالی کا شکار ہیں۔کہیں پر بھی اسٹریٹ لائٹس کا وجود نہیں ہے۔ کراچی کے بڑے بڑے کاروباری علاقوں میں گندگی و غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔مقامی حکومتوں کا نظام نہ ہونے کے باعث سرکاری افسران فنڈز نہ ہونے یا دیگر حیلوں بہانوں سے شہر کی حالت مزید ابتر بنا رہے ہیں اور میرے خیال میں یہی حالت تمام چھوٹے بڑے شہروں کی ہے جہاں مقامی نمائندے نہ ہونے کے باعث سرکاری افسران بے لگام ہو چکے ہیں اور اپنی مرضی مطابق صفائی‘ستھرائی اور دیگر بنیادی مسائل کے حل کی جانب توجہ دیتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Baldiyati Nizaam Par Tahafuzat Aur Sindh Hakomat Ki Tarjeehat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 January 2022 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.