معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں

حکومت نئے سال میں مہنگائی کو کم کرنے کی حکمت عملی وضع کرے

جمعرات 20 جنوری 2022

Maeeshat IMF Ke Muashi Shikanjay Mein
محمد عبداللہ حمید گل
نئے سال 2022ء کا آغاز منی بجٹ اور ہوشربا مہنگائی سے ہو چکا ہے۔ستم در ستم گزرے 2021ء کے جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات میں فی لیٹر 4 روپے کا اضافہ کرکے نئے سال کا تحفہ دیا۔وزیر اعظم درست کہتے ہیں کہ خاموش انقلاب آ رہا ہے واقعی معاشی بدحالی،بدترین اقتصادی صورتحال نے ہمیں خانہ جنگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اگر اب بھی ہمارے حکمرانوں نے اس کی آہٹ پر کان نہ دھرے تو خدا نخواستہ ملک کو تباہی کی طرف جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اللہ رب العزت قرآن کریم کی سورت بقرة میں فرماتا ہے کہ یہود و نصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی اتباع کر لو۔آج جدید دنیا کے حالات اور اس میں مسلمانوں کی حالت زار اس بات کی کھل کر گواہی دے رہی ہے کہ اللہ کا کلام برحق ہے۔

(جاری ہے)


نائن الیون کے ڈرامے کے بعد جس وقت امریکہ نے افغانستان پر دھاوا بولنے کے لئے پاکستان کو دھمکی دی کہ ”تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف“ تو ہم نے اس دجالی قوت کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا اور یہ بھول گئے کہ بظاہر جس مصیبت کو ٹالنے کے لئے ہم افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دینے کی دلیل الاپی وہ مصیبت کچھ عرصے کے لئے تو پیچھے ہو جائے گی لیکن ٹلے گی کبھی نہیں اور آج یہ مصیبت۔

امریکی دجالی معاشی ہتھیار آئی ایم ایف ہر اول دستے کی طرح ہمارے سر پر تلوار بنا کر لٹکا دی گئی ہے۔بے شک مجاہد اسلام،عظیم سپہ سالار جنرل حمید گل مرحوم نے موجودہ بگڑتے قومی و ملکی معاشی منظر نامے کی پیش گوئی کر دی تھی آج وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہی ہیں کہ عوام مزید حکمران و اشرافیہ کے جبر کو برداشت نہیں کر سکتی وہ وقت دور نہیں جب اس گلے سڑے سسٹم کو ایک خاموش مگر پرامن انقلاب کے ذریعے لپیٹ دیا جائے گا۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اسلامی سیاسی و معاشی نظام ہی ہمارے لئے نجات دہندہ ہے اور سچی و خالص ریاست مدینہ کا قیام کا خواب اسلامی نظام حکومت کے ذریعے ہی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے یہ خدشہ بھی بد ستور موجود ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کیلئے کڑی شرائط آئندہ آنے والے وقت میں پاکستان میں عوامی بغاوت کا راستہ ہموار کر سکتی ہیں کیونکہ اس شرائط کی شکل میں بجلی،گیس اور تیل کی قیمتیں اور ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف اس قدر اوپر نکل چکا ہے کہ عوام کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا یہی امریکہ،برطانیہ، اسرائیل اور بھارت چاہتے ہیں۔


کیا پاکستان اتنا بڑا رسک لے سکتا ہے؟اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا اگرچہ منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے کے اقدامات پر ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا۔تھپڑ،گالی گلوچ،شور شرابا اور ہنگامہ آرائی زوروں پر رہی۔افسوس اپوزیشن بھی نمائشی احتجاج سے بڑھ کر کچھ نہ کر سکی۔منی بجٹ سے مراد عبوری بجٹ کی ایسی دستاویز ہے جو مالیاتی پالیسی پر نظر ثانی کرتی ہے،منی بجٹ بتری کی شکار معاشی حالات میں لایا جاتا ہے۔

پاکستان میں حکومت کی جانب سے منی بجٹ کا پیش کرنا آئی ایم ایف کے مطالبات کا ہی حصہ ہے۔12 جنوری کو آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ سے قبل بھی عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کی تکمیل یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔آئی ایم ایف پاکستان کو جو قرضہ دے رہا ہے اس کے بدلے میں وہ ملک کی معاشی پالیسیاں اپنے ہاتھ میں لے کر تمام فیصلے خود کرنا چاہتا ہے۔یوں پاکستان کے بجٹ کی تیاری کا معاملہ بھی آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہی چلا جائے گا اور وہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ اشیاء کی قیمتیں کیا مقرر کرنی ہیں اور کون کون سے ٹیکس لگانے ہیں۔

یہ صورتحال ملک کو ایک ایسی نہج پر لے جائے گی جہاں عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا اور ملکی معیشت استحکام کی بجائے مزید بگاڑ کی طرف جائے گی۔
منی بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق حقیقی طور پر صرف دو ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگے ہیں جبکہ لگژری آٹمز پر انہتر ارب کے ٹیکس لگے ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔دو ارب کے ٹیکسوں سے کون سا طوفان آ جائے گا۔

وزیر خزانہ کا کہنا بجا ہے کہ تحریک انصاف کی ڈھائی سالہ حکومت میں پہلے ہی مہنگائی کے اتنے باد و باراں آ چکے ہیں کہ موجودہ منی بجٹ بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے۔343 ارب روپے کی جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے نئے ٹیکسوں اور جی ایس ٹی کی مختلف اشیاء پر چھوٹ ختم کرنے کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ ان کی اپنی حد تک تو ٹھیک ہو گا لیکن شاید وہ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ عوام مہنگائی اور بے روزگاری میں ہونے والے مسلسل اضافے کی وجہ سے پہلے ہی شدید پریشانی اور مشکلات کا شکار ہیں،ایسے میں نئے ٹیکسوں کا نفاذ یا عام استعمال کی اشیاء پر جی ایس ٹی کی چھوٹ ختم کرنے سے عوام کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا دوسری جانب پی ٹی آئی کے پچھلے تین سال کے اندر عوام پر ہونے والے تمام تر معاشی جبر پر اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔

اوائل میں پی ڈی ایم کا حوّا کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی،مگر جب لوگوں نے اسے سنجیدہ لینا شروع ہی کیا تھا کہ اس کو ہی خیرباد کہہ دیا گیا۔درحقیقت حکمران سمیت اپوزیشن طبقے کے مفادات یکساں ہیں،سارا بوجھ تو عوام پر پڑے گا۔
ملک میں جاری لوٹ مار میں تمام سیاسی جماعتیں و مافیاز اپنا اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں کیونکہ اشرافیہ و حکمران طبقہ بخوبی جانتا ہے کہ عوام کو بیوقوف بنانا بے حد آسان ہے اس لئے جونہی الیکشن قریب آتے ہیں اپوزیشن جماعتوں کے حکومتی مخالف بیانات اور جلسے جلوسوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ عام لوگوں کے معیار زندگی اور ان کیلئے دستیاب سہولتیں روز بروز ختم کی جا رہی ہیں۔محنت کش عوام کے استحصال کیلئے نئے نئے ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں اور ظلم کا شکنجہ مزید کسا جا رہا ہے۔عوام کو نگلنے کیلئے مہنگائی کے دیو کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔اناج اور سبزیوں کی قیمتیں عوام کی رسائی سے دور ہو گئی ہیں۔شرم ناک بات تو یہ بھی ہے کہ بچوں کے دودھ سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے،سرکاری علاج معالجے کی سہولت وزراء،اراکین پارلیمنٹ کیلئے مخصوص ہے جبکہ غریب ووٹرز کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔

2021ء کا پورا سال بھی یہی مظاہرہ دیکھتے ہوئے گزرا اور 2022ء جس کا آغاز ہی منی بجٹ سے ہوا ہے امید کی جانی چاہیے کہ حکومت وقت نئے سال میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے مہنگائی کو کم کرنے کی حکمت عملی وضع کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Maeeshat IMF Ke Muashi Shikanjay Mein is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 January 2022 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.