کتاب زندگی ہے

ہمارے ملک میں لےدے کے ایکسپو کا کتب میلہ ہی وہ مقام ہے کہ جہاں سال بہ سال کثیر کتابیں اورکتاب چہرے ایک ساتھ دستیاب ملتے ہیں اور وہاں نظر آتے رنگین ملبوسات کے صدقے بہت سی میچنگ کتب بھی خرید لی جاتی ہیں

Syed Arif Mustafa سید عارف مصطفیٰ جمعرات 23 اپریل 2020

kitaab zindagi hai
پاکستان میں کتب بینی کو بھی یقینناً کار ثواب سمجھا جاتا ہے اسی لیئے وطن عزیز میں پرہیز گاروں اور کتاب پڑھنے والوں کی تعداد ایک جتنی ہی ہے... جو کوئی منش من کو نا بھاتا ہو لیکن ملنے و بیزار کرنے بار بار چلا آتا ہو، آپ اسے دو تین کتابیں دے کر پڑھنے اور تبصرہ کرنے کو کہیئے انشاءاللہ  - پھر آپ نہ دیکھیں گے قمر کی صورت ...گو بعضے کتاب بیزار لوگوں کے خیال میں کتاب کی ضرورت یا تو طالبعلم کو ہوتی ہے یا ردی فروش کو تاہم اس کے باوجود وطن عزیز میں معتبر نظر آنے کے لیئے ہاتھ میں ہر وقت کسی نہ کسی کتاب کو تھامے ہونا خاصا مجرب ہے ۔

۔۔
 کتاب جتنی ضخیم ہو اعتبار و وقار میں بھی اسی قدر اضافہ یقینی ہوتا ہے البتہ زیادہ معتبر نظر آنے کے لیئے ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کؤر چڑھاکےتھامنا کسی قدر پرخطر تجربہ بھی ہوسکتا ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ جو مصنف و محقق نامی موذی مخلوق ہے وہ اپنی کتاب کے بل پہ آپکے ان لمحات کو بھی چھین لینا چاہتی ہے کہ جو آپ فکر کائنات میں غلطاں رہ کر گزار سکتے تھے۔

یہاں کائنات سے مس کائنات مراد لینا مناسب نہیں مگر بہت زیادہ نا مناسب بھی نہیں ۔۔۔
صاحبو ایک ہمارےبچپن کا زمانہ تھا کہ جب ہرطرف کتابوں کی بہار تھی اور لائبریریاں کھچا کھچ بھری رہتی تھیں ، اب یہ صورت ہے کہ خاطر خواہ تنہائی مطلوب ہے تو سیدھے لائبریری کا رخ کیجیئے کہ جہاں بس تین چار ہی چہرے نظر آئیں گے جو دراصل دائمی بیروزگار یا مستقل مزاج عاشق ہیں اؤل الذکر طبقہ گھر والوں کے طعن وتشنیع سے بچنے کیلیئے وہاں دن بھر پناہ گزیں رہتا ہے اور دوسرا طبقہ وہاں بیٹھا بہت آرام سے خیال یار میں ڈوبا رہتا کیونکہ وہاں اسے کسی روک ٹوک یا رقیب سے نوک جھونک کا ذرا بھی دھڑکا نہیں ہوتا ۔

۔۔ کتاب بیزاری کے اس دور میں آج کل لائبریریوں میں جو لوگ دیکھنے میں آتےہیں ان میں سے زیادہ ترکے ہاتھوں میں عام طور پہ اخبارات و رسائل ہی پائے جاتے ہیں ۔۔۔ شاز ہی کوئی کتاب تھامے بیٹھا ہوتا ہے جنکے اوپر یا نیچے سے آپ انہیں ادھر ادھرنظریں دوڑاتے ہی پائیں گے، ایک دو تو صرف انہی نشستوں پہ شست باندھے ملیں گے کہ جو باہر کے رخ کھلے ہوئے دروازے کی سیدھ میں ہیں اور جہاں سے قریبی بس اسٹاپ بھی احاطہء نگاہ میں رہتا ہے۔

وہاں ایک آدھ نہایت بوسیدہ سے گدھ نما بزرگ بھی ہمہ وقت کسی ایک ہی جگہ دھرے ملیں گے کہ جنکی شناختی علامت ہی نہایت دلجمعی سے کسی موٹی تازی سی کتاب کی جڑوں میں بیٹھےرہنا ہوتاہے۔۔
 گو کہ اب عام رواج کتابوں کو پڑھنے کے بجائے کتابی چہرے پڑھنے کا بن چکا ہے، لیکن چند لوگ پھر بھی ایسے ہیں جوکتابیں پڑھنے سے اب بھی باز نہیں آتے،، مرزا معقول کے نزدیک یہ لوگ وہ ہیں جو اس شدید خطرے کے عالم میں بھی بیٹھے غرق مطالعہ ہوتے ہیں کہ جب انکا سفینہ ء حیات غرق ہورہا ہوتا ہے۔

۔۔ یوں سمجھیئے کتب بینی ایک نشے کی جیسی لت ہےاور مطالعے کا ہر اصلی شائق اس میں لت پت ہے۔۔۔ گویا بعضے پھر بھی ایسے ہیں کہ اب بھی کتاب دوستی کا دم بھرتے ہیں ۔۔۔ اور انکے لیئے اکبر الہ آبادی کا یہ شعر ترمیم کے بعد یوں انکی نذر کیا جاسکتا ہے کہ ۔۔۔ لکھوائی ہے رقیبوں نے رپٹ جاجا کے تھانے میں کہ اکبر کتاب پڑھتا ہے اس زمانے میں کتابوں کی کم خریداری کی ایک وجہ انکی قیمتوں کا عام آدمی کی دسترس سے نکل جانا بھی ہے اور کتاب دشمن رویہ بھی ۔

۔۔اگر عام آدمی کو بفضل خدا یا بوجہ بیگم کی غفلت، چند سو روپے فاضل میسر آجائیں تو وہ ان سے کوئی وقیع کتاب خریدنے کے بجائے ہمیشہ شینواری ٹائپ ہوٹل کی مٹن کڑھائی یا باربی کیوکھانے کو لپکتا ہے ۔۔۔
 ویسے بھی علم یہ ہے کہ اب کتاب کو وی آئی پی شناخت دے کے اسے خاص آدمی تک محدود کیا جارہا ہے اور یوں سمجھیئے کہ آج کل کتابوں کی مہنگائی کا جو مسئلہ ہے وہ درحقیقت انکی نئی دیدہ زیب طباعت اور چکنے گرد پوش سے جڑا ہے- بلاشبہ آجکل مضبوط تحریر کتابوں کو اتنا مربوط نہیں کرتی جتنی ایک مضبوط جلد ، مرزا معقول اس باب میں اضافی یہ کہتے ہیں کہ اب ہر کتاب پہ ایک چمکیلے سے چکنے سے گرد پوش کی موجودگی اتنی ہی ضروری سمجھی جاتی ہے جتنی کہ مصنف کے جسم پہ پوشاک ، لیکن پوشاک کا نا ہونا تو آجکل پھربھی قابل برداشت ہے۔

۔۔ خیر چھوڑیئے یوں سمجھیئے کہ دیدہ زیب و شاندار گرد پوش ہونا اسلیئے بھی ضروری ہے کہ اگر کتاب کے اندر کچھ اچھا نا ہو تو کم ازکم باہر تو کچھ بہتر ہو۔۔۔ پرنٹنگ کے لیئے بھی آف سیٹ سے کم ہرگز گوارا نہیں اورقیمتی پیپر کے استعمال کے بغیر چارہ نہیں خواہ 50 گرام کے صفحے پہ شائع ہونے والی تحریر پانچ گرام کی ہی کیوں نہ ہو۔
 ہمارے خواجہ صاحب کتاب کی ابتری کے جواز میں یوں فرماتے ہیں کہ "موبائل کتاب کی نوخیز سوکن ہے جبکہ کمپیوٹر اسکا شوخ و شنگ جوان بھتیجا ،، ان دونوں رنگینوں کے آنکھ مٹکے نے بیچاری کتاب کے حالات سنگین بنا دیئے ہیں اور اسے طاق نسیاں پر پہنچا دیا ہے" ۔

۔۔ لیکن انکے اس بیان پہ میں شینٹوزا کا حوالہ دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس نے کہیں کہا تھا کہ " کتاب درحقیقت ایک بہت فائدے کی چیزہے، اس نے تو افراد ہی نہیں بہت سی اقوام کی بھی حالت ہی بدل دی ہے۔۔۔ لیکن اب ٹیکنالوجی کی جدت نئے حقائق کو جنم دیا ہے جنہوں نے کتاب کی اہمیت پہ پہ بہت ہی کاری ضرب لگائی ہے۔۔۔" لیکن میں اس سے ایک قدم آگے بڑھ کے یہ کہتا ہوں کہ کہ اب اس معاشرے میں اہل علم و ادب ادیبوں کے لیئے جلد ہی وہ بدترین وقت آنے والا ہے کہ وہ اپنی غیر نصابی کتب صرف گن پوائنٹ پہ ہی پڑھواسکیں گے.. لیکن پھر بھی کچھ نا کچھ لوگوں کےمقدر میں رتبہء شہادت ہی آئیگا... ویسے بھی ٹی وی موبائل اور کمپیوٹرنے تواب اس 'اصلی با تصویر' ادب کو بھی یتیم کر چھوڑا ہے کہ جو اپنے فروغ کیلیئے تکیوں پہ تکیہ کرتا تھا اور زیرتکیہ سانس لیتا تھا۔

۔۔۔
 وجہ جو بھی ہو ہمارے ملک میں لےدے کے ایکسپو کا کتب میلہ ہی وہ مقام ہے کہ جہاں سال بہ سال کثیر کتابیں اورکتاب چہرے ایک ساتھ دستیاب ملتے ہیں اور وہاں نظر آتے رنگین ملبوسات کے صدقے بہت سی میچنگ کتب بھی خرید لی جاتی ہیں ،، گو ملک بھر میں کتب فروشی کے بہتیرے بازار بھی ہیں لیکن ان سے قطع نظر عمومی طور پہ کتاب دشمن ماحول بڑھتا جارہا ہے اور لگتا ہے کہ وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ ادیب و شاعر اپنی کتاب چرانے والے کی بلائیں لیں گے اور جو کوئی بھی فرد زائد از نصاب کتاب پڑھتا پایا گیا اسکی یا تو فی الفور نظر اتاری جائے گی یا پھر نفسیاتی ہسپتال کی ایمبولینس طلب کرلی جائے گی ۔

۔۔۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے ملک میں اسمبلی کے حاضری سے پر لگاتار دو اجلاس ہوجانا اتنا غیر یقینی نہیں جتنا کہ کسی کتاب کا سال بھر میں دوسرے ایڈیشن شائع ہونے کی خوشخبری تک پہنچ جانا ۔۔۔زیادہ تر علمی و تحقیقی کتب کا تو پہلا ایڈیشن ہی آخری ثابت ہوتا ہے اور اشاعت بھی ہزار دو ہزار کتب سے سمٹ کر دو سو تین سو تک محدود ہوگئی ہے اور اب ان میں سےنوے فیصد کتابیں دوستوں و اقرباء کے گھر یا دفتر پہ اچانک پہنچ کے تحفے میں دیدی جاتی ہیں ، اچانک اس لیئے پہنچا جاتا ہے کہ کہیں پہلے سے آمد کی اطلاع پاکے وہ کہیں سٹک نہ جائے ۔

۔۔ یہ یقینی امر ہے کہ آجکل کسی کتاب کا ایک برس پرانا نسخہ کسی کتاب فروش کے پاس نہ ملے تو پان فروشوں سے بھی پوچھ لینا مناسب بلکہ بہت مفید رہتا ہے " - اب تو عام مشاہدے کی بات ہے کہ اشاعت کے چند ہی دنوں بعد مطلوبہ نئی نکور نتھ بردار کتاب کسی نا کسی ٹھیلے پہ سیروں کے حساب سے مل ہی جاتی ہے لیکن ان ٹھیلوں کے مستقل مہمانوں میں سبھی وہ نہیں جو کہ الفاظ والی تحریر کے اسیر مطالعہ ہوتےہیں، بقول تابش بہتیروں کا ذوق مطالعہ بڑا تفتیشی و مشاہداتی ہوتا ہے اور وہ صرف "اصلی، باتصویر" کی ٹیگ والی کتب کے ہی رسیا ہوتے ہیں۔

۔۔
 کیونکہ انسانی معاشرے میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں اسی لیئے کتاب کےبھی دشمن ہوتے ہیں جو کہ ڈھونڈھے بغیر ہی مل جاتے ہیں ۔۔ ان میں سے بعضے کتابوں کو لائبریری میں نہیں رہنے دیتے اور کئی اپنے گھر میں ۔۔۔ اگر دادا عالم فاضل یا ادیب و شاعر تھے تو ان کا پوتا انکے سوئم کے اگلے دن ہی کباڑی کا ٹھیلہ دورازے پہ منگا کر انکا سارا خزانہء علم فٹا فٹ عام عوام کی دسترس میں پہنچادینے میں‌دیر نہیں لگاتا جہاں سے یہ انبار پان فروشوں اور پنساریوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے ۔

اکثر خواتین بھی کتابوں سے دشمنی کا رویہ رکھتی ہیں کیونکہ انکی دانست میں کتابیں انکے شوہروں کو انکی غیبت اور چغلیوں سے محفوظ کرتی ہیں، اور انکےمجازی خداؤں کو زیادہ سیانا بناتی ہیں، لیکن بدگمان نہ ہوں سبھی تو ایسی نہیں ہوتیں ،کیونکہ اکثر تو صوفوں اور پردوں کے شیڈ سے میچنگ کرتی ہوئی کتابیں لا کر اپنے ڈرائنگ روم میں سجاتی ہیں اور انکی حفاظت دل وجان سے کرتی ہیں، مجال ہے کہ کسی کا ہاتھ انہیں چھوجائے۔

۔۔ یہاں کتابوں پہ زوال کی ایک وجہ اور بھی سمجھ میں آتی ہے جوعام تو نہیں لیکن بہرحال کئی گھرنوں میں محسوس کی جا سکتی ہے اور وہ یہ وجہ ہے کہ متعدد سابق حسینائیں نوخیزی میں رضیہ بٹ کےپڑھے گئے ناولوں اور پروین شاکر کی شاعری کا ہیرو ہاتھ نا لگنے پہ دائم روگ پال لیتی ہیں اور پھر بڑی مستقل مزاجی سے یہ روگ زندگی بھر کیلیئے تھمائے گئے اپنے متبادل ہیرو کو منتقل کرنے میں لگی رہتی ہیں۔

۔۔ ایسا متبادل ہیرو اس حسن سلوک کو زیادہ نہیں جھیل پاتا اور کچھ ہی عرصٹاے میں نی تابڑ توڑ ناقدری کے بعد اپنے حلیئےسے یکسر بے نیاز ہوکر اپنے جغرافیئے میں ایک بےلگام توند اور سر پہ فحش سا گنج ابھارے پھرتا نظر آتا ہے۔۔۔ فی زمانہ کتب بینی کا زوق اس ابتر حالت کو پہنچا ہواہے کہ ایک بار پھر اکبر الہ آبادی یاد آتے ہیں جو آج اگر زندہ ہوتے تو اپنے ایک مشہور شعر کو اب یوں رقم کرتے ۔

۔۔۔ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام۔۔۔ وہ کتاب بھی پڑھتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن ان سب سفاک حقائق کے باوجود جیسے تیسے کرکے بیچاری کتاب ہمارے ارد گرد اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور اکثر اپنی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔۔۔ مضمون کے شروع میں میں نے بتایاتھا کہ شپینٹوزا نے کہیں کہا تھا کہ " کتاب ایک بہت فائدے کی چیزہے، اسنے تو میری حالت ہی بدل دی ہے"۔

۔۔ ،،، کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ شپینٹوزا کون ہے ،، یہ میرے ذہن کی پیداور ایک کردار ہے اور بس ۔۔ مجھے آپکو اس سے یعنی ایک فرضی مگر غیرملکی ادیب سے مرعوب کرنا مطلوب تھا سو کرلیا کیونکہ مجھے بھی معلوم تھا کہ میں پکڑا نہیں جاؤں گا کیونکہ مجھے بخوبی علم ہے کہ آپکا مطالعہ کتنا کم اور غیرملکی ناموں سے مرعوب ہونے کی عادت کس قدر پختہ ہے ، اگر میں اسے کوئی دیسی نام دیتا تو آپ اس قول کو نری بکواس کے سوا بھلا اور کیا گردانتے۔

۔۔
 لیکن آخر میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ان سب منفی باتوں کے باوجود کتاب اب بھی ایک متحرک معاشرے کی زندگی ہے، اسی لیئے یہ ترقی یافتہ اقوام کے طرز زندگی کا اب بھی اہم حصہ ہے کیونکہ اانہیں بخوبی معلوم ہے کہ کتاب کے ورق ورق میں مستور اک نئی تجلی اور بھرپورپیغام بندگی ہے۔۔۔ مجھ سے مت پوچھو کتاب میں کیا ہے ، یہ پوچھو کتاب میں کیا نہیں ہے۔

۔۔ کیونکہ اس میں بہت کچھ ہے بلکہ شاید سبھی کچھ ہے لہٰذہ کتاب ہی زندگی ہے۔۔۔۔ یارواہل دل کا سننا شرط ہے کیونکہ کتاب کلام کرتی ہے ، شرف انساں کو سلام کرتی ہے ، کتاب سماج کا نور ہے اسکی زندگی ہے۔۔۔۔۔ اندر کے کانوں سے سنو ۔۔۔ بلاشبہ کتاب چیختی ہے، سسکتی ہے کراہتی ہے، گاہے ہنستی ہے، مسکراتی ہے گدگداتی ہے، کتاب ہی زندگی ہے۔۔۔ کتاب قد نہیں مرتبہ بڑھاتی ہے، وحشت مآبوں کو انساں بناتی ہے ... اچھے ڈھنگ سے جینا سکھاتی ہے، کتاب ہی زندگی ہے۔

۔۔ کتاب جاگتی ہے جگاتی ہے، کھلی آنکھوں سپنے دکھاتی ہے، انگلی پکڑ کر نئی دنیاؤں میں لیجاتی ہے، کئی ان دیکھے سفروں پہ ساتھ جاتی ہے یوں کتاب ہی زندگی ہے۔۔۔۔ درحقیقت کتاب کرن ہے اجالا ہے روشنیوں کو گوندھ کر نئے سورج چڑھاتی ہے، کتاب چنگاری ہے، شعلہ ہے بھڑک کےلاؤ بنکر گرمی بڑھاتی ہے، پھر اس میں کیا شک ہے کہ کتاب ہی زندگی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kitaab zindagi hai is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 April 2020 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.