نسلِ نو کی خرابی، ذمہ دار کون،میڈیا، والدین، معاشرہ؟

آج انٹرنیٹ پر وہ سب کچھ دکھایا جا رہا ہے کہ انسان نا چاہتے ہوئے بھی انٹرنیٹ پر دکھائی جانے والی رنگینیوں میں کھو جاتا ہے۔ جو لوگ انٹرنیٹ کے عادی ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ اعصابی تھکن میں مبتلا رہتے ہیں اور جسمانی تھکن بھی ان کے چہروں پر نمایاں نظر اتی ہے

صفیہ ہارون جمعہ 7 فروری 2020

nasle no ke kharabi, zimmedar kaun, media, walidain, muashra?
میڈیا نے جہاں عوام کو ہر قسم کی صورتِ حال سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا ہے، وہاں عوام الناس کے لیے بہت سے مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔عوام انٹرنیٹ کی دلدادہ ہے۔ کوئی بھی موقع ہو، دن ہو یا رات، اکثریت انٹرنیٹ میں کھوئی ہوئی نظر آتی ہے، ان میں زیادہ تعداد نوجوان لوگوں کی ہے۔ نوجوان نسل انٹرنیٹ کی رنگینیوں میں اس حد تک کھو چکی ہے کہ ان کے پاس والدین کو وقت دینے کے لیے بھی چند لمحات میسر نہیں ہیں۔

اگر وہ چند گھڑی والدین کے پاس بیٹھتے بھی ہیں تو ان کی نظریں مسلسل موبائل کی سکرین پر جمی ہوتی ہیں۔ والدین بچوں کی عدم دلچسپی کے باعث ان سے اپنے مسائل بیان کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔انٹرنیٹ کی فری فراہمی نسلِ نو کے اخلاقی زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ آج ہمارے بچے کم عمری میں ہی وہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں جو دیکھے بغیر ہمارے آباؤ اجداد منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں۔

(جاری ہے)

آج کے دور میں 5 سال سے لے کر 10 سال کی عمر تک کے بچے کو شادی جیسے رشتے کی نزاکت کا علم ہے۔ یہ انٹرنیٹ کی ہی کرامت ہے کہ آج 10 سے لے کر 12 سال تک کی عمر کے بچے بھی جنسی کشش محسوس کرنے لگے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو زینب کے قاتل تو پیدا ہو سکتے ہیں لیکن محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی نہیں۔ اسی حوالے سے اقبال نے فرمایا تھا: 
#تہماری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا۔

آج انٹرنیٹ پر وہ سب کچھ دکھایا جا رہا ہے کہ انسان نا چاہتے ہوئے بھی انٹرنیٹ پر دکھائی جانے والی رنگینیوں میں کھو جاتا ہے۔ جو لوگ انٹرنیٹ کے عادی ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ اعصابی تھکن میں مبتلا رہتے ہیں اور جسمانی تھکن بھی ان کے چہروں پر نمایاں نظر اتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی ملک کی معیشت یا اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہو تو وہاں کے نوجوان نسل کو کمزور کر دو، انٹرنیٹ کی مفت فراہمی نے یہ کام احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔

والدین کی عدم دلچسپی بھی بچوں کو بگاڑنے کی ذمہ دار ہے۔ والدین اپنی ذاتی زندگی میں اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اپنے بچوں کی دلچسپیوں یا ان کی ذاتی زندگیوں کے بارے میں جاننے کا وقت ہی نہیں ہے۔ ایسے بچے جو والدین کی عدم توجہگی کا شکار ہوتے ہیں، ان کی ذات میں ہمیشہ ایک خلا رہ جاتا ہے اور وہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے کبھی سگریٹ نوشی تو کبھی انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں، یہیں سے اخلاقی زوال شروع ہوتا ہے۔

والدین اس بات سے قطعی لاعلم ہوتے ہیں کہ ساری رات ان کے بچے موبائل پر کیا دیکھ رہے ہوتے ہیں؟ والدین اس سوچ میں غلطاں ہوتے ہیں کہ ان کے بچے ساری رات مطالعاتی کاموں میں مصروف ہیں لیکن درحقیقت بچے ایک ایسی دلدل کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں کہ جہاں سے نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
 والدین کو اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر خاص طور پر نظر رکھنی چاہیے۔

جو والدین انٹرنیٹ کے استعمال کے مسلسل عادی ہوتے ہیں، ان کے بچے بھی والدین کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اخلاقی زوال کا شکار نا ہوں لیکن کیا کبھی سوچا کہ اس اخلاقی زوال کی طرف لے جانے کی ابتدا تو ہم خود کرتے ہیں۔ماں اگر کسی کام میں مصروف ہے تو ٹی۔وی یا موبائل پر کارٹون یا گانا لگا کر بچوں کو مصروف کر دیا جاتا ہے تاکہ بچے ماں باپ کے لیے پریشانی کا باعث نا بنیں۔

بچے کا ذہن ایک سادہ تختی کی مانند ہوتا ہے، آپ اس پر جو لکھو گے، وہ رقم ہوتا جائے گا اور بچے کے ذہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑتا چلا جائے گا۔ رفتہ رفتہ بچہ ان گانوں اور فلموں کا عادی ہو جاتا ہے جو اس نے بچپن میں دیکھی یا سنی ہوتی ہیں اور پھر بڑا ہو کر وہ خود کی زندگی کو بھی ان گانوں یا فلموں سے مشروط کر لیتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی بچہ کسی گانے کی دُھن پر اچھل کود کر رہا ہے تو ماں باپ بہت فخر سے اس کی ان حرکات پر تالیاں بجاتے ہیں اور بعض دفعہ تو ان لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں بھی محفوظ کر لیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا کریز کے تحت اس کو فیس بک یا واٹس ایپ پر اپ لوڈ بھی کر دیا جاتا ہے۔

کیا واقعی اس طرح ہم اپنے بچوں کے اندر اخلاقیات پیدا کر سکیں گے؟
اقبال فرماتے ہیں:
#تہذیبِ بے نقاب کی آنکھیں نکال دو
اس قوم کے شباب کی آنکھیں نکال دو
جس نے سماعتوں کو دیا درسِ بے خودی
اس نغمہِ رُباب کی آنکھیں نکال دو۔
ماؤں کو نسلِ نو کے تحفظ کے لیے کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔مائیں بچوں کو میڈیا کے حوالے کر کے اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو گئی ہیں۔

ماؤں نے مکمل طور پر بچوں کو میڈیا کے رحم و کرم ہر چھوڑ دیا ہے۔ کیا ہم اس طرح کی نئی نسل تیار کرنے جا رہے ہیں؟ اقبال تو ایسے نوجوان چاہتے تھے جو ستاروں ہر کمندیں ڈال سکیں، لیکن جس طرح ہم اپنی نسلِ نو کی تربیت کر رہے ہیں، کیا اس طرح نسلِ نو خاکبازی کا سبق چھوڑ کا جانبازی کا سبق حاصل کر پائے گی؟
بچہ جب ابھی ماں کے رحم میں ہوتا ہے تو وہ باہر کی دنیا کی آوازوں کو سنتا، سمجھنا اور محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے۔

بچہ اپنی پیدائش کے ابتدائی ایام میں جو آوازیں سنتا ہے، ان کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتا ہے۔ میری ان ماؤں سے گزارش ہے کہ اگر آپ کا بچہ ابھی چھوٹا ہے تو آپ ان کو موبائل پر کارٹون یا گانوں کی آوازیں سنانے کی بجائے ان کو قرآن پاک کی تلاوت سننے کا عادی بنائیے۔ اگر ماں باپ ہی بچے کو غلط راستے پر لے کر چلیں گے تو بچہ کیسے اخلاقی اقدار کی پاسداری کر پائے گا۔

۔۔۔۔ پھر تو وہی حساب ہو گا کہ:
# گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ہمارا معاشرہ بھی نسلِ نو کے بگاڑ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ معاشرے میں موجود اخلاقی برائیوں کی طرف باغی ذہن فوراً مائل ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچے جو احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں، معاشرے میں موجود برائیاں ان کو جلد ہی اپنی طرف مائل کر لیتی ہیں، نتیجتاً وہ چور، ڈاکو یا بدعنوان بن جاتے ہیں۔

بے مقصد زندگی، شکست پسندی اور جبر پرستی ایسے رجحانات ہیں جو ہماری تہذیب کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ آج ہماری اخلاقی اقدار رُو بہ زوال ہیں۔ ہماری اخلاقی اقدار کو پرانی روایت، پرانی سوچ، سمجھ کر ان سے دامن چھڑا لیا گیا ہے۔ میکانکی زندگی نے عزت و آبرو کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔ فائیو سٹار ہوٹلز، نائٹ کلبز، ڈانس اکیڈمیز، فیملی پارکس اور اب تو جامعات بھی فحاشی پھیلانے کی سب سے بڑی وجوہات میں شامل ہو چکی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

nasle no ke kharabi, zimmedar kaun, media, walidain, muashra? is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 February 2020 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.