کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے پھر سراٹھا لیا

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ماہ مقدس رمضان المبارک میں ایک بار پھر دہشت گردی نے سر اٹھا لیا اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے کوئٹہ میں لوگوں میں خوف و ہراس بھی پیدا ہوا ہے

بدھ 21 جون 2017

Target Killing In Quetta
وطن یار خلجی:
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ماہ مقدس رمضان المبارک میں ایک بار پھر دہشت گردی نے سر اٹھا لیا اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے کوئٹہ میں لوگوں میں خوف و ہراس بھی پیدا ہوا ہے۔ دہشت گرد موٹرسائیکل کے ذریعے اپنے ٹارگٹ کو حاصل کررہے ہیں۔ اس رمضان المبارک میں ٹارگٹ کلنگ کے تین واقعات بڑے اہم رونماہوئے ہیں ، جن میں پولیس آفیسر عمر الرحمن کا قتل اور ان کے بھتیجے انسپکٹر بلال کا اس واقعے میں زخمی ہونا، دوسرا واقعہ سپنی روڈ پر ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ ہے جس میں بہن اوربھائی جاں بحق ہوئے اور تیسرا واقعہ گزشتہ روز سدباب روڈ پر چکی شاہنوانی کے اہلکار جاں بحق ہوگئے۔

ان حملوں کی ذمہ داری بھی ایک ہی کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے۔

(جاری ہے)

ان واقعات کے بعد کوئٹہ شہر کی ازسر نو سکیورٹی پلاننگ کی شدید ضرورت سامنے آئی ہے اور کئی بار ایسا کہا بھی گیا ہے کہ ایک پائیدار سکیورٹی پلان ازسر نو تشکیل دیا جائیگا تاہم یہ پلان تو بنتے آرہے ہیں مگر ایک ایسا سکیورٹی پلان تشکیل نہیں پاسکا جوکہ کوئٹہ کو دہشت گردی کے واقعا ت سے بچائے۔

کوئٹہ شہر میں کچھ عرصہ قبل شہر کے مختلف علاقوں میں ایف سی کی چوکیاں قائم تھیں پھر یہ چوکیاں ختم کی گئیں اور ان چوکیوں کے خاتمے کیلئے سیاسی جماعتوں کے آئے روز بیانات آتے تھے یہاں تک کہ بلاچستان اسمبلی میں بھی ان چوکیوں کی مخالفت اراکین اسمبلی کی جانب سے آتی رہی اور بالآخر یہ چوکیاں ختم کی گئیں ان چوکیوں کے خاتمے سے دہشت گردی کے واقعات کم نہیں ہوئے بلکہ اضافہ ہوا اور شہر میں اغوا برائے تاوان کے واقعات بھی رونما ہونے لگے بلکہ چوریوں اور موٹرسائیکل چھیننے کے واقعات بھی زیادہ ہوگئے یہاں تک کہ جناح ٹاؤن سے چائینز جوڑے کے اغواء کا واقعہ بھی رونما ہوا۔

ورنہ قبل ازیں جناح ٹاؤن کی مین روڈ سمنگلی روڈ پر دو مقامات پر ایف سی کی چوکیاں قائم تھیں الغرض اب ایک بار پھر ان پرانے چوکیوں پر ایف سی اہلکار تعینات تو ہیں مگر ان چوکیوں کو مستقل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایف سی کے موثر کردار سے سٹریٹ کرائمز بھی کافی حدتک کنٹرول ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات پر ایک بار اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ شر پسندوں کو ہر قیمت پر انجام تک پہنچاکر ہی دم لیں گے اور یہ شر پسند ہمارے معاشرے کیلئے ناسور ہیں ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس سلسلے میں ایک اچھا اقدام یہ اٹھایا ہے کہ انہوں نے یہ ہدایت کی ہے کہ کوئٹہ میں سکیورٹی انتظامات کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ امن وامان علاقہ ایس ایچ او کی ذمہ داری ہے اور رمضان المبارک اور عیدالفطر کیلئے سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے جائیں۔ وزیراعلیٰ نے یہ سب ممکن بنانے کیلئے باقاعدہ آئی جی پولیس بلوچستان احسن محبوب کو ہدایت بھی کی ہے اور اس سلسلے آئی جی پولیس کے ساتھ ایک اہم اجلاس بھی منعقد ہوا ہے اس اجلاس کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئے اور سخت ترین سکیورٹی پلان کی تشکیل فوری طور پر اور اس پر مکمل عمل درآمد پر بھی بات ہو چکی ہے۔

واضح رہے کہ کوئٹہ میں امن وامان کے قیام کو برقرار رکھنا حکومت کیلئے ایک چیلنج بھی ہے اور اس اہم ایشو پر ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔دوسری طرف این ایچ اے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حکام کی جانب سے گزشتہ دنوں این 70قلعہ سیف اللہ لورالائی سیکشن اور این 50مغل کوٹ سیکشن پر اس وقت جاری منصوبوں سے وہاں پر تعینات مقامی انجینئرز کو برطرف کیا گیا اور نیشنل ہائی وے وہاں پر اہم عہدیداروں کو بھی ٹرانسفر کیا گیا ہے ،اس واقعے سے برطرف کئے گئے انجینئرز نے احتجاجی مہم بھی شروع کررکھی ہے اوران کا کہنا ہے کہ انہیں ایک منصوبے کے تحت برطرف کیاگیا تاکہ ان اہم منصوبوں پر کام کی جاری رفتار میں رکاوٹ ڈالی جائے اور اب این ایچ اے کی جانب سے غیر مقامی لوگوں کو تعینات کیا جا رہا ہے۔

برطرف مقامی انجینئرز کا کہنا ہے کہ یہ دونوں اہم اورمیگا منصوبے میں جو بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ہم نے اپنے صلاحیتوں کی بنیاد پر قلیل مدت میں 40فیصد کام احسن طور پر مکمل کرایا اور تمام مقامی انجینئرز نے شب وروز ایک کرکے اپنے صوبے کے اس میگا پروجیکٹس کی کامیابی بروقت تکمیل اور کام کی بہتر معیار اور کوالٹی پر صرف کیا۔

مگر افسوس کہ ہمیں حکام بالاکی جانب سے ایک خاص مقصد کیلئے پروجیکٹس سے نکالا گیا۔ این ایچ اے کے اعلیٰ حکام اور باالخصوص وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ بلوچستان اس زیادتی کا نوٹس لیں کیونکہ یہ بلوچستان کے انجینئرز کے ساتھ ایک سراسر زیادتی ہے کہ مقامی لوگوں کو نکال کر غیر مقامی لوگوں کو لایا جارہا ہے۔این 70اور این 50سیکشن پر جاری میگا منصوبوں سے ان مقامی انجینئروں کو نکالنے کے عمل پر تمام سیاسی جماعتوں بلکہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے بھی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور این ایچ اے کے اس عمل کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سی پیک کے عمل کو متاثر کرنے کی ایک کڑی ہے۔

ان تمام سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ نکالے گئے مقامی انجینئرز کو فوری طور پر بحال کیا جائے اور این ایچ اے ممبر اور پی ڈی کو فوری طور پریہاں سے ہٹایا جائے جوکہ اس زیادتی پر مبنی عمل کے ذمہ دار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Target Killing In Quetta is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 June 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.