توکل

’برکت میاں آج کل تو لوگ جہیز میں کاریں دیتے ہیں؛ تم لاکھ سوا لاکھ کی موٹر سائیکل دینے کیلئے لیت و لعل کر رہے ہو‘‘؛ ’’میری معذرت قبول کریں لطیف صاحب‘‘؛ ’’اور اگر میں معذرت کر کے اٹھ جاوٴں؟‘‘ لطیف نے سفاکانہ انداذ میں اتنا کہا تھا کہ تھانیدار اکرم بول پڑا

Babur Javed بابر جاوید ہفتہ 1 جولائی 2017

Tawakkal
سکینہ جب بھی اپنے شوہر برکت سے اپنی بڑھتی ہوئی پریشانی کا ذکر کرتی وہ اسے امید بھرے لہجے میں کہتا ’’ہمارا رب ہمارے حالات کو ہم سے زیادہ بہتر جانتا ہے؛ وہ یقیناً بہتر اسباب پیدا کرے گا‘‘ ان کی بیٹی رابعہ کی شادی جتنی تیزی سے قریب آ رہی تھی اتنی ہی تیزی سے لڑکے والے جہیز کی فہرست میں اضافہ کرتے جا رہے تھے؛ لڑکے کی ماں حالانکہ رشتے میں سکینہ کی سگی بہن تھی اور وہ سکینہ کے مالی حالات سے اچھی طرح آگاہ تھی پھر بھی آئے روز یہ کہہ کر کوئی نیا مطالبہ کر دیتی کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی پر اپنے سارے چاوٴ پورے کرنا چاہتی ہے۔

پچھلے دنوں اس نے کسی کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ لڑکے کی دونوں بہنوں اور اس کے لیے سونے کی انگوٹھیاں ضرور بنوا لیں؛ سکینہ کی منت سماجت کے بعد وہ صرف اپنی انگوٹھی پر اکتفا کرنے پر مان گئی لیکن ساتھ ہی شرط رکھ دی کہ لڑکے کی دونوں بہنوں؛ پھوپھیوں اور ماسیوں کیلئے مروجہ ڈیزائن کا ایک ایک جوڑا کپڑوں کا بنوا دیں۔

(جاری ہے)

برکت لڑکے والوں کے مطالبات پورے کرنے کیلئے دن رات محنت کر رہا تھا؛ وہ زرعی آلات کی مرمت کا کام کرتا تھا؛ گندم کی کٹائی کے موسم میں اس کا کام زوروں پر ہوتا تھا اسی لیے اس نے شادی کی تاریخ کٹائی کے بعد کی رکھی تھی تاکہ وہ آسانی سے تیاریاں کر سکے۔

صمدیوں کے نت نئے مطالبات کی وجہ سے برکت کیلئے ہدف کا حصول مشکل تر ہوتا جا رہا تھا لیکن اسے اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ تھا۔ اس نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر بیٹی کا جہیز بنایا تھا اور دعا کر رہا تھا کہ اس کی محنت کارگر ہو اور بیٹی کے سسرال کوسب کچھ پسند آ جائے۔ متوسط آبادی کے اس محلے میں لوگ ایک دوسرے کی مالی معاونت کرنے کی اہلیت تو نہیں رکھتے تھے البتہ خوشی غمی کے موقع پر انتظامی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے؛ خاص طور پر باوٴ الیاس، چودھری نذیر، تھانیدار اکرم اور فیقے پہلوان کے بیٹوں کو ان امور پر بہت دسترس حاصل تھی. رابعہ کی شادی والے دن بھی نوجوانوں نے برکت کو بے فکر ہو جانے کا کہہ کر پوری تندہی سے ٹینٹ لگائے؛ کرسیاں میز بچھائے اور دولہا کے بیٹھنے کیلئے خوبصورت سٹیج بنانے کے علاوہ گلی کے کناروں پر سفیدہ بھی بچھایا۔

تھانیدار اکرم کے بیٹے کی ڈیوٹی دیگوں پر باورچی کا ہاتھ بٹانے کیلئے لگا دی گئی تھی۔ گرمی؛ دھوئیں اور آگ نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا تھا؛ سبھی دوست اس کا حال دیکھ دیکھ فقرے بازی بھی کرتے رہے جبکہ وہ بھی ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیتا ’]خدمت میں عظمت ہے‘‘؛ ادھر استقبال بارات کی تیاریاں مکمل ہوئیں ادھر آمد بارات کی اطلاع آ گئی؛ برکت نے ٹینٹ کا طائرانہ جائزہ لیا اور مطمئن ہو کر اپنے بڑے بھائیوں اور محلے کے ہم عصر دوستوں کے ساتھ بارات کو خوش آمدید کہنے کیلئے آگے بڑھا؛ باراتیوں کو پرتپاک طریقے سے ملنے کے بعد ٹینٹ میں لے جا کر کرسیوں پر بٹھایا گیا؛ دولہے اور اس کے والد کو سٹیج کے صوفوں پر جگہ دی گئی؛ منچلے نوجوان بینڈ کی دھن پر رقص کرنے لگے؛ برکت نے کسی لڑکے کو نکاح خوان بلا لانے کا کہا اور خود تھانیدار اکرم کو ساتھ لے کر دولہے کے پاس آ کر بیٹھ گیا؛ دولہے کے والد لطیف نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور برکت سے مخاطب ہوا ’’برکت میاں اس سے پہلے کہ نکاح خوان آئے ایک ضروری بات تم سے کرنا چاہتا ہوں‘‘؛ لطیف کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ برکت نے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ محسوس کی؛ اس کے با وجود اس نے خود کو پرسکون رکھا ’’جی کہیے لطیف صاحب‘‘؛ ’’بیٹے کی خواہش ہے کہ اسے جہیز میں 125 ہنڈا بھی دیا جائے؛ مجھے امید ہے کہ تم اپنے داماد کو مایوس نہیں کرو گے‘‘؛ ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں لطیف صاحب؟ میں پہلے ہی اپنی حیثیت سے بہت زیادہ کر چکا ہوں‘‘؛ یہ کہتے ہوئے برکت نے وہ تمام چیزیں گنوا دیں جو اس نے طاقت نہ ہونے کے باوجود ان کے مطالبے پر جہیز میں شامل کی تھیں؛ ’’دیکھو بھئی فریج ٹی وی تو تمہاری بچی کے ہی کام آئیں گے نا؛ ہمارے بیٹے کیلئے بھی تو کچھ کرو‘‘؛ لطیف کا لہجہ خشک تھا؛ برکت نے بے بسی سے سر ہلایا اور ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا ’’مجھ ناتواں پر اتنا بوجھ مت ڈالیں؛ میری کمر پہلے ہی ٹوٹ چکی ہے‘‘؛ ’’برکت میاں آج کل تو لوگ جہیز میں کاریں دیتے ہیں؛ تم لاکھ سوا لاکھ کی موٹر سائیکل دینے کیلئے لیت و لعل کر رہے ہو‘‘؛ ’’میری معذرت قبول کریں لطیف صاحب‘‘؛ ’’اور اگر میں معذرت کر کے اٹھ جاوٴں؟‘‘ لطیف نے سفاکانہ انداذ میں اتنا کہا تھا کہ تھانیدار اکرم بول پڑا ’’تم مزید ایک لفظ بولے بغیر اٹھ جاوٴ ورنہ بہت برا ہوگا؛ لے جاوٴ اپنے بیٹے اور باراتیوں کو‘‘؛ لطیف اس اچانک صورت حال پر ششدر رہ گیا ’’آپ کس حیثیت سے بول رہے ہیں؟‘‘ لطیف نے اس بار مصنوعی غصہ دکھایا۔

تھانیدار نے دولہے کو گریبان سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا ’’میں رابعہ کا بزرگ ہونے کی حیثیت سے بول رہا ہوں‘‘؛ برکت نے گھبرا کر تھانیدار کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتے ہوئے خاموش رہنے کو کہا ’’آپ ایک منٹ رکیے؛ میں انہیں سمجھا لوں گا؛ آخر ہیں تو ہمارے رشتے دار‘‘؛ ’’کیوں ایسے بے حس شخص کو اپنا رشتے دار سمجھتے ہو جسے تمہاری عزت کا خیال نہیں؛ اور ذرا سوچو جن لوگوں کا شادی سے پہلے یہ رویہ ہے وہ شادی کے بعد تمہاری بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟‘‘ تھانیدار نے اس زور سے کہا کہ پورے پنڈال میں اس کی آواز گونج گئی؛ حاضرین پر سناٹا طاری ہو گیا ’’شادی نہیں ہو سکتی‘‘؛ تھانیدار نے سلسلہء کلام جوڑتے ہوئے کہا ’’لہٰذا آپ لوگ جا سکتے ہیں۔

‘‘ اس بات پر لوگ ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے ٹینٹ سے نکلنا شروع ہو گئے۔ ’’ساری تیاریاں مکمل ہیں، کھانا بھی وافر بنا ہوا ہے سب ضائع ہو جائے گا؛ برکت نے جھجکتے ہوئے سرگوشی کی؛ ’’پرواہ نہ کرو‘‘ کہہ کر تھانیدار نے باوٴ اسلم کے بیٹے کو حکم دیا کہ وہ کاشف کو بلا کر لائے؛ تھوڑی ہی دیرمیں کاشف آ گیا؛ پسینے میں شرابور؛ میلے کچیلے کپڑے؛ دھوئیں اور گرد سے اٹے چہرے کے ساتھ یہ خوبصورت نوجوان بہت مضحکہ خیز نظر آ رہا تھا؛ اس کی یہ حالت دیگوں پر ڈیوٹی کی وجہ سے ہوئی تھی۔

تھانیدار نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے برکت کو مخاطب کیا ’’آپ جانتے ہی ہیں یہ میرا بیٹا ہے؛ اس سال اس کی تعلیم مکمل ہو جائے گی اور یہ وکیل بن جائے گا؛ اگر آپ رضامند ہوں تو میں اس کیلئے رابعہ کا ہاتھ مانگنے کی جرأت کروں؛ میری طرف سے کوئی زور زبردستی نہیں؛ آپ رابعہ اور اس کی ماں سے بھی پوچھ لیں‘‘؛ برکت متذبذب نظر آ رہا تھا؛ بڑی مشکل سے اتنا ہی کہہ پایا ’’جی آپ ----- ؟‘‘ مجھے علم ہے کہ عام لوگ پولیس والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے؛ یاد رکھو پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں؛ آپ میرے واقفان حال سے پوچھ سکتے ہو اور میں بھی حلفاً کہتا ہوں کہ میں نے کبھی رشوت نہیں لی؛ رزق حلال سے بچوں کی پرورش کی ہے‘‘؛ ’’مم میرا یہ مطلب نہیں تھا‘‘ یہ کہ کر برکت نے کچھ توقف کیا پھر خوشی سے بولا ’’میں سکینہ اور بیٹی سے بات کر لوں‘‘؛ ’’بے شک، بے شک؛ اگر وہ راضی ہو حائیں تو ابھی نکاح کر کے بیٹی کو رخصت کر دو‘‘ تھانیدار نے برکت کے کندھوں پر تھپکی دیتے ہوئے کہا؛ ’’وہ تمہارا تیار کھانا بھی کام آ جائے گا؛ پورے محلے کو دعوت دے دو‘‘۔

ادھر سکینہ تک سارے واقعہ کی اطلاع پہنچ چکی تھی اسی لیے وہ دل پر ہاتھ رکھے ٹینٹ میں گھستی نظر آئی ’’یہ میں نے کیا سنا؟‘‘ اس نے آتے ہی سوال داغ دیا؛ برکت نے تفصیل سے ساری روداد اس کے گوش گزار کر دی؛ سکینہ نے لجاجت بھرے لہجے میں تھانیدار کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ کاشف جیسا لڑکا ہماری بیٹی کو مل گیا؛ بھائی صاحب جہیز وغیرہ سب تیار ہے؛ بسم اللہ کرتے ہیں‘‘؛ ’’جہیز کے نام پر ہمیں ایک دھیلہ نہیں چاہیے بھابی؛ رابعہ جیسی سگھڑ اور نیک بیٹی جس گھر میں جائے اس گھر کو اور کیا چاہیے‘‘ سکینہ نے برکت کی طرف دیکھا اور عقیدت سے بولی ’’تم سچ ہی کہا کرتے ہو کہ ہمارا رب ہمارے حالات کو ہم سے بہتر جانتا ہے؛ وہ یقیناً بہتر اسباب پیدا کرے گا۔‘‘

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tawakkal is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 July 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.