یہ بدلا ہے، یا بدلہ ہے

سائنسدان جدید دور سے ہم آہنگ قوم کو نصاب نہیں دے سکتے برسوں وہی نصاب چلتا ہے جو ان اسا تذہ نے خود پڑھا ہوتا ہے۔ فلاسفر و علماء لوگوں کو ایسا نظریہ و سوچ نہیں دے سکتے جو معاشرے میں جرائم کی روک تھام میں کارگر ثابت ہو سکے ان سب مسائل کی وجہ کیا ہے

Abdul Jabbar Shakir عبدالجبار شاکر جمعرات 25 اپریل 2019

ye badla hai, ya badla hai
پاکستان میں 3 طرح کا نصاب تعلیم اور چار قسم کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ مدارس ،نجی تعلیمی ادارے ،انگلش میڈیم ادارے اور سرکاری ادارے۔ان تمام میں یا تو محض دینی یا دنیاوی یا دونوں نصاب یکساں پڑھایا جا رہا ہے اور ہر ادارے کی سوچ و فکر دوسرے سے مختلف ہے شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں اچھے ڈاکٹر انجینئر سائنسدان فلاسفر اور کامل علماء پیدا نہیں ہوتے اور ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے دیگر ترقی یافتہ ممالک سے مدد لینا پڑتی ہے ۔

یہاں انجینئروں کے پل پل بھر میں گر جاتے ہیں سڑکیں تکمیل سے قبل ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہیں ڈاکٹر مسیحاوٴں کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔سائنسدان جدید دور سے ہم آہنگ قوم کو نصاب نہیں دے سکتے برسوں وہی نصاب چلتا ہے جو ان اسا تذہ نے خود پڑھا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

فلاسفر و علماء لوگوں کو ایسا نظریہ و سوچ نہیں دے سکتے جو معاشرے میں جرائم کی روک تھام میں کارگر ثابت ہو سکے ان سب مسائل کی وجہ کیا ہے۔

پہلے نمبر پر اگر ہم دیکھیں تو ملک میں اعلی سطح کے ادارے یعنی انگلش میڈیم ادارے اپنی من مانی کرتے ہیں ان اداروں میں پڑھنے والے اعلی طبقہ کے بچے ہوتے ہیں جن کو مستقبل میں ملک کی زمام تھامنے کے قابل سمجھا جاتا ہے اور پرسٹن کیمرج آکسفورڈ اور دیگر انٹر نیشنل یونیورسٹیوں کا لالچ دے کر خوب فائدہ حاصل کیا جاتا ہے ۔
دوسرے نمبر پر نجی تعلیمی ادارے ہیں یہ محض پیٹ کے پجاری ہوتے ہیں اور ایک ہی کمرے میں پورا ادارہ چلا لیتے ہیں چاہے کسی کو فائدہ ہو یا نقصان ۔

 تیسرے نمبر پر سرکاری ادارے ہیں جو اپنی داستان آپ ہیں ۔کہیں سٹاف نہیں اور کہیں عمارت کہیں متعلمین کا فقدان ہے تو کہیں سہولیات کا ایسے میں تبدیلی تو آخر آ ئے گی ہی نا ۔
چوتھے نمبر پر مدارس یعنی دینی تعلیم سے منسلک طبقہ جس کو سنوارنے کی ہر پل حکومت کو فکر ستائے رکھتی ہے وہ اسی بے چینی میں آرام کر سکتی ہے نہ سکون۔پاکستان میں فی الوقت یہ طبقہ دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم سے آراستہ ہو رہا ہے اور اپنی قدامت بے عزتی اور بدنامی کے باوجود وطن کی نظریاتی سرحدوں پر پہرہ دے رہا ہے اور ہر آنے والی سازش کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے۔

اولا ہمارا تعلیمی نصاب خود ایک بہت بڑا المیہ ہے اس کے باوجود Uscrifاور دیگر عالمی و سامراجی قوتوں کی نصاب میں مداخلت قوم و ملت کے تعلیم یافتہ اور صاحب اقتدار افراد کے منہ پر طمانچہ ہے۔
 ہمارا نظام تعلیم 50 سالہ قدیم اور تقریبا 60 فیصد سے زائد بچے تعلیم سے دور ہیں جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ پاکستان کی آئندہ آنے والی نصف سے زائد آبادی تعلیم سے نا آشنا ہو گی یعنی جب لوگ مریخ اور دیگر سیاروں پر رہائش پذیر ہو رہے ہوں گے تو ہم ابھی بوریہ بستر سمیٹ کر سامراجی قوتوں سے ملنے والی ہدایات پر بخوشی عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہے ہوں گے ۔

ترقی یافتہ ممالک جرمنی فرانس اور دیگر اپنے نصاب میں آئین و قانون قومی نظریہ سوچ و فکر اور اپنے اسلاف کے کارناموں کو جگہ دیتے ہیں پاکستان کے لوگ عقیدہ ختم نبوت سے ان پڑھ اور گنوار ہونے کے باوجود والہانہ محبت کرتے ہیں اگر یہ بیوروکریسی اور صاحب اقتدار ادارے بھی یہ فریضہ سرانجام دیں تو آدھے سے زیادہ مسائل از خود حل ہو سکتے ہیں اور اس ملک کی نظریاتی سرحدوں پر ہونے والے حملوں کی خبر عوام تک پہنچنے سے قبل ان کو منہ توڑ جواب دیا جا سکتا ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی قوتوں کی سوچ و فکر کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نصاب اور آئین و قانون کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے۔ کم از کم اگر ہم قابل ڈاکٹر انجینئر سائنسدان نہیں پیدا سکتے تو ایک اچھا راسخ العقیدہ مسلمان پیدا کرنا تو ہماری ذمہ داری ہے ۔دنیا میں کثیر التعداد تباہی کے واقعات تب ہوئے ہیں جب غیر کی سوچ و فکر کو نسل نو تک رساء ملی ماضی قریب میں اس کی واضح مثال سقوط ڈ ھاکہ ہے۔

پرائمری اور مڈل تک کے سادہ لوح بچوں کے اذہان میں اسلامی عقائد اس طرح پختہ کر دی جائیں کہ وہ تختہ دار پر بھی اس پر ثابت قدم رہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو یہی سبق یاد کروائیں ۔
آئین پاکستان کی رو سے قادیانیوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ وطن کی پولیسیوں کو قبول کریں اور اس کے آئین و قانون کی خلاف ورزی کرنے سے گریز کریں فی الوقت ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ صرف نو ماہ میں عقیدہ ختم نبوت پر تیسری مرتبہ مختلف حربوں سے حملہ ہو رہا ہے شاید تبدیلی کا نعرہ لگا کر ہر بات بدل دینے کا عزم ہے چاہے اس کا تعلق عقائد سے ہی کیوں نہ ہو خدارا اگر یہ عزم ہے تو ہمیں ایسی تبدیلی نہیں چاہیئے
یہ جو تم نے بدلا ہے
یہ بدلا ہے یا بدلہ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ye badla hai, ya badla hai is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 April 2019 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.