مسیحا یا قاتل۔۔؟

ہفتہ 8 اگست 2020

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا انحصار طاقت و معیشت کے بعد قوم کے اخلاق پر منحصر ہوتا ہے کسی بھی قوم میں پیدا ہونے والے انجینئرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص جب تک خود کے اخلاق بہتر نہیں کرتے جب تک خود میں انسانیت کی محبت پیدا نہیں کرتے تب تک وہ ملک یا قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی، پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ اسے ہم جیسی نالائق قوم ملی جو اپنے ذرا سے فائدے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے پھر چاہے آپ کسی بھی شعبے سے منسلک ہوں آپ صرف اپنا فائدہ دیکھیں گے، تاریخ اس بات کی گواہی دے گی کہ جب بھی کسی شخص کو عروج ملا اس نے نچلے طبقے کے لوگوں کو دبانا شروع کیا، یہ ہر شخص نہیں کرتا کچھ لوگ ترقی پا کر بھی زمین سے جڑے رہتے ہیں اور کچھ غرور و تکبر میں انسانیت کا لحاظ بھی بھول جاتے ہیں، پاکستان کے سرکاری دفاتر میں کچھ اونچی مسندوں پر بیٹھے لوگ بھی ایسے ہی ہیں جو ذرا سی ترقی پا کر اپنی حثیت بھول جاتے ہیں، پھر اس کے بعد پاکستان میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی جب جہاں جیسے جس کا دل کرے وہ کرتا پھرے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے،
میں اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے آپ کے سامنے کچھ چیزیں رکھنا چاہتا ہوں پھر اسکے بعد فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہو گا، میں سب سے پہلے بات کروں گا پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں تعینات سینئر ڈاکٹرز کے رویوں کی تو کچھ عرصہ قبل وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں ایمرجنسی لیبر روم میں ایک عورت کو لایا گیا ڈاکٹرز نے کبھی کہاں بھیجا کبھی کہاں بھیجا آخر کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد آپریشن کیا گیا تو بچہ ماں کے پیٹ میں ہی دم توڑ چکا تھا ماں کی حالت غیر تھی، ینگ ڈاکٹرز نے صرف خود کا دامن بچایا بلکہ مریضہ سے انتہائی بدتمیزی سے بھی پیش آئے اور یہاں تک کہا کہ بالکل صحیح ہوا تمہارے ساتھ اب یہ رویہ ملاحظہ فرمائیں یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ جس روز یہ واقعہ پیش آیا اسی روز دو سے تین اور بچے اسی طرح ماں کے پیٹ میں ہی جان کی بازی ہار گئے صرف ان ڈاکٹرز کی غفلت کی وجہ سے، روز کا معمول ہے کسی نا کسی مریض کی موت ان ڈاکٹرز کی غفلت سے واقع ہوتی ہے بعد میں یہ ڈاکٹرز انتہائی بدتمیزی سے پیش آتے ہیں، سینئر ڈاکٹرز پہلی بات ہسپتال میں آتے نہیں ہیں آتے ہیں تو صرف کچھ دیر کے لئے وہ بھی چائے پیتے ہیں گپ شپ کرتے ہیں اور واپس اپنے پرائیویٹ کلینکس میں چلے جاتے ہیں، ینگ ڈاکٹرز کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ سینئر ڈاکٹرز انکی راہنمائی فرمائیں لیکن سینئر ڈاکٹرز کا رویہ انتہائی غیر مہذب ہے، مریضوں کے ساتھ آئے لواحقین کے ساتھ انتہائی بدتمیزی سے پیش آتے ہیں، گائنی وارڈ کے دو سے تین کیس اس طرح ہو چکے ہیں بعد میں مریضوں اور لواحقین کو بجائے تسلی اور شرمندہ ہونے کہ یہی ڈاکٹرز انکے ساتھ بد تمیزی کرتے نظر آتے ہیں، ینگ ڈاکٹرز کے پاس تجربہ نہیں ہے وہ یہی تجربات سینئر ڈاکٹرز کی غیر موجودگی میں مریضوں پر آزماتے ہیں اور کئی مریضوں کو انکے ہاتھوں عمر بھی کے روگ لگ رہے ہیں،  اسکے بعد آپ کسی بھی جگہ چلے جائیں وہاں سفارشی لوگ آپ کو بکثرت ملیں گے ان ڈاکٹرز کے جاننے والے کئی مرد حضرات بھی لیبر روم میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، اب لیبر روم میں مرد کا کیا کام لیکن یہ ڈاکٹر حضرات کی سفارشات سے اندر دندناتے پھرتے ہیں اور نا جاننے والوں کی خواتین بھی باہر بیٹھی ہوتی ہیں،  مریضوں کے ساتھ اور لواحقین کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہوتا ہے انکو گھنٹوں ذلیل کیا جاتا ہے کبھی پرچی کے چکر میں کبھی داخلہ فارم کے چکر میں کچھی الٹراساؤنڈ کے لئے غرض یہ کہ مریض چاہے مر جائے کوئی کچھ نہیں کرے گا،  شہباز شریف دور میں یہ حالات ایسے نہیں تھے قدرے بہتر تھے تب سینئر ڈاکٹرز بھی باقاعدگی سے آتے تھے انکا رویہ بھی ٹھیک ہوتا تھا لیکن جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ انکے اوپر بیٹھنے والا شخص کوئی نہیں ہے ڈاکٹرز سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے یہ جیسے اپنی مرضی کریں کوئی روک ٹوک نہیں ہے،
سینئر ڈاکٹرز اپنے پرائیویٹ کلینکس میں مریضوں سے گائنی کیس کی فیس لے کر انکا آپریشن سرکاری ہسپتال کے لیبر روم میں کرتے ہیں اور بعض اوقات پیسے لے کر بھی ذلیل کیا جاتا ہے اور مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں یا عمر بھی کے روگ لگ جاتے ہیں،  یہی ڈاکٹرز دوران ڈیوٹی موبائل فون استعمال کرتے ہیں یہ کس کی اجازت سے دوران ڈیوٹی فون استعمال کرنے کی اجازت کونسا قانون دیتا ہے، مریض تڑپ رہا ہوتا ہے ہمارے ڈاکٹرز صاحبان فون پر گفتگو فرما رہے ہوتے ہیں،  آپ بیرونِ ملک چلے جائیں آپ کو دوران ڈیوٹی کبھی کسی کے پاس موبائل فون نہیں ملے گا،  بلکہ آپ پاکستان کے بڑے برانڈز پر چلے جائیں انکے ورکرز کے پاس آپکو کبھی موبائل فون نہیں ملیں گے تو کیا ہماری جانیں اتنی  سستی ہیں کہ لیبر روم میں بیٹھے ڈاکٹرز اور کسی بھی سرکاری ہسپتال کے کسی بھی وارڈ میں بیٹھا ہر ڈاکٹر موبائل فون استعمال کر رہے ہوتے ہیں، انکے موبائل استعمال ر فوری پابندی ہونی چاہیے ڈاکٹرز کی ڈیوٹی کے آٹھ گھنٹے ہوتے ہیں یہ صاحبان اپنے مقررہ وقت سے لیٹ آتے ہیں اور ڈیوٹی ختم ہونے سے آدھا گھنٹا پہلے یہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، پھر درمیان میں اسٹاف کے کھانے کا وقت بھی ہوتا ہے چائے کا وقفہ بھی لازمی ہوتا ہے اور دیگر کئی کام کرنا بھی فرض عین سمجھتے ہیں، ان ڈاکٹر حضرات کے لئے بائیو میٹرک سسٹم ہونا چاہیے جس سے صبح وقت کی پابندی کے ساتھ تشریف لائیں اور اور اپنے مقررہ وقت سے پہلے کہیں نا جا سکیں،  مدعا یہ ہے کہ یہ ڈاکٹرز کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے یہ لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے،۔

(جاری ہے)

ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں لوٹ گھسوٹ کا رواج ہے۔ اوپر سے نیچے تک ہر جگہ انسانوں کو مختلف حیلوں اور طریقوں سے لوٹا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ایک مسیحا کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو مریضوں کا علاج کرکے انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ اگر اس روپ میں یہ مجبور اور نادار لوگوں تک شفقت اور ہمدردی کے روپ میں لوٹ لیتے ہیں تو پھر غریب کے لیے جینے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا ۔

جب کوئی انسان کسی موذی مرض کا شکار ہو اور ڈاکٹر سے علاج کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہ ہوتو ایسے میں اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے تو پھر انسانیت، ہمدردی، مسیحائی اور صلہ رحمی جیسے الفاظ بے معنی ہیں،
تحریک انصاف کے دور حکومت میں انکو بہت زیادہ آزادی ملی ہے یہ اپنے کام میں سنجیدہ نہیں ہیں انکو کوئی چیک کرنے نہیں آتا یہ اپنی مرضی کرتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے لوگ سرکاری ہسپتالوں میں جانے سے ڈرنے لگے ہیں ہم جنہیں مسیحا سمجھتے ہیں وہ قاتل بھی ہیں حکومت پاکستان کو فوری ایکشن لینا چاہیے اور انکو راہ راست پر لانے کے کچھ اقدامات کرنے چاہیں ورنہ ہمارے مریض اسی طرح مرتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :