معزز عدالتیں

بدھ 9 دسمبر 2020

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

کوئی بھی ملک یا معاشرہ  جب جرائم پرقابو پاتا ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک میں کس جرم کی سزا کیا ہے اس سزا پر عملدرآمد کتنا ہوتا ہے آپ چوری کی سزا پھانسی رکھ دیں لیکن کسی بھی مجرم کو پھانسی نہ دیں تو ایسی سزا جس پر عملدرآمد ہی نہ ہو اسکا کوئی فائدہ نہیں جب تک کسی ملک میں سزائوں پر سو فیصد عملدرآمد نہیں ہوتا اس ملک اس معاشرے سے جرائم کبھی ختم نہیں ہوتے، اور وطن عزیز پاکستان میں قانون کی اگر بات کی جائے تو ہمیں یہ دیکھ کر بہت شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ہر جرم کی کڑی سے کڑی سزا غریب کے لئے ہے جبکہ امراء اور طاقتوروں کے لئے قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے
دنیا کا گندہ ترین عدالتی نظام پاکستان کا عدالتی نظام ہے۔

پاکستان کا عدالتی نظام پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ هے۔

(جاری ہے)

پاکستان کی عدالتیں چوروں، ڈاکووں اور کرپٹ مافیا کی محفوظ پناہگاہیں بن چکی ھیں۔
امیروں کو چھٹی والے دن بھی ضمانت اور غریب کی پچیس سال میں بھی سنی نہیں جاتی۔
 جو عدالتی نظام ایان علی جیسی عورت کو سزا نہ دے سکا،  جو نظام راؤ انوار جیسے شخص کو رہا کر دے جو عدالت اربوں روپے کی ثابت شدہ کرپشن کرنے والےنواز شریف کو با عزت بری کر دے۔

ماڈل ٹاؤن میں حاملہ عورتوں کو گولیاں مارنے والے آزاد،
معصوم بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے آزاد ڈارک ویب سائٹس پر ویڈیوز دینے والے آزاد
نیب کے پکڑے ہوئے سارے ملزم باری باری رہا آسیہ ملعونہ رہا، ریمنڈ ڈیوس جیسے دہشت گرد کے کیس ہماری عدالتوں کی بجائے امریکہ میں چلتے ہیں، اور ایمل کانسی کو ہم خود امریکہ کے حوالے کرتے ہیں، زینب فرشتہ اور کشمور واقعہ جیسے ہزاروں واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں لیکن سزا صرف اسکو ملتی ہے جنکا کیس میڈیا یا سوشل میڈیا پر آجاتا ہے۔

ورنہ ہمارے ملک میں عدالتیں غریب کے لئے ایک جیل خانہ ہے جس میں ایک غریب انسان جانے سء گھبراتا ہے پھر ہمیں لگتا ہے کہ یہ ملک صرف طاقتوروں کا ہے اس میں غریب پیدا ہونا اور غریب رہنا جرم ہے، ہمارا عدالتی نظام دیکھ کر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے آگ یا پتھر نہ برسنے لگ جائیں سب نے حلف لیا ہے لیکن تقریباً سارے کرپٹ ہیں۔
ہماری عدالتیں جرائم پر سزا نہیں دیتی، ہمارے جسٹس حلف لیتے ہیں لیکن پھر بھی فیصلوں میں امراء اور غرباء کا فرق دیکھا جاتا ہے، ایک غریب چوری کر لے تو اس کی چمڑی ادھیڑ کر اس سے منوا لیا جاتا ہے لیکن جو اربوں کی چوری کرے اسے ہماری معزز عدالتیں لندن جانے کے پروانے جاری کرے کیا یہ ریاست مدینہ کا ماڈل ہے؟
عمران خان صاحب ریاست مدینہ میں تو خلیفہ دوئم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تو خود جا کر فیصلہ کرتے تھے،  انکو فاروق کا لقب ملا کہ حق اور باطل میں فرق کرنے والا سچ اور جھوٹ کو عیاں کرنے والا عدل کرنے والا انصاف کی راہ پر چلنے والا غریب امیر کا فرق مٹانے والا۔

۔ آپ بھی ریاست مدینہ کا دعویٰ کرتے ہیں سب سے ہماری عدالتوں پر تو نظر ڈالیں کہ کیا یہ ریاست مدینہ جیسا انصاف کرتی ہیں کیا یہ عدل کے تقاضے پورے کرتی ہیں اگر نہیں تو خدارا ان پر ایکشن لیں۔  میں آگے بڑھنے سے پہلے آپکو کچھ سناتا ہوں،
بابا کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے۔ ایک لمبی چوڑی جاگیر کے مالک تھے۔
جاگیرداری کی یکسانیت سے اکتا کر ایک دن بھانجے سے کہا، " تیرے شہر میں سیشن جج کی کرسی خالی ہے۔


( اس دور میں سیشن جج کی کرسی کا آرڈر انگریز وائسرائے جاری کرتے تھے )
تُو لاٹ صاحب کے نام چھٹی لکھ دے اور مَیں سیشن ججی کا پروانہ لے آتا ہوں"
مہاراجہ سے چھٹی لکھوا کے مہر لگوا کر ماموں لاٹ صاحب کے پاس تعیناتی لینے چلے گئے
وائسرائے نے کچھ سوال وجواب کے بعد یہ سوچ کر کہ جس نے سفارش کی ہے وہی اسے بھگتے۔ درخواست لی اور حکم نامہ جاری کر دیا۔

اب کھڑک سنگھ جسٹس کھڑک سنگھ بن کر پٹیالہ تشریف لے آئے۔
خدا کی قدرت پہلا مقدمہ ہی جسٹس کھڑک سنگھ کی عدالت میں قتل کا آگیا۔
ایک طرف چار قاتل کٹہرے میں کھڑے تھے، دوسری طرف ایک روتی دھوتی عورت سر کا دوپٹہ گلے میں لٹکائے کھڑی آنسوں پونچھ رہی ہے۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو اچھی طرح دیکھ لیا۔


اتنے میں پولیس آفیسر آگے بڑھا، جسٹس کھڑک سنگھ کے سامنے کچھ کاغذات رکھے اور کہنے لگا،
مائی لارڈ ! یہ عورت کرانتی کور ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان چاروں نے مل کر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاوند کا خون کیا ہے۔
کیوں مائی؟ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس آفیسر کی بات پوری بھی نہیں سنی اور عورت سے پوچھنے لگے کیسے مارا تھا؟
عورت بولی، سرکار جو دائیں طرف کھڑا ہے اس کے ہاتھ میں برچھا تھا، درمیان والا کئی لے کر آیا تھا اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔

یہ چاروں کماد کے اولے سے اچانک نکلے اور مارا ماری شروع کر دی اور ان ظالموں نے میرے سر کے تاج کو جان سے مار دیا۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تاؤ دے کر غصے سے چاروں ملزموں کو دیکھا اور کہا کیوں بھئی تم نے بندہ مار دیا؟
نہ جی نہ میرے ہاتھ میں بیلچہ تھا کئی (کسی) نہیں، ایک ملزم نے کہا۔
دوسرا ملزم بولا: جناب میرے پاس برچھا نہیں تھا، ایک سوٹی کے آگے درانتی بندھی تھی، بیری کے درخت سے ٹہنیاں کاٹنے والی۔


جسٹس کھڑک سنگھ بولے چلو، جو کچھ بھی تمہارے ہاتھ میں تھا وہ تو مر گیا نا!
پر جناب ہمارا مقصد تو نہ اسے مارنا تھا، نہ زخمی کرنا تھا تیسرا ملزم بولا۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے کاغذوں کا پلندہ اپنے آگے کیا اور فیصلہ لکھنے ہی لگے تھے کہ ایک دم سے عدالت کی کرسی سے کالے کوٹ والا آدمی اٹھ کر تیزی سے سامنے آیا اور بولا، مائی لارڈ آپ پوری تفصیل تو سنیں۔

میرے یہ مؤکل تو صرف اسے سمجھانے کے لئے اس کی زمین پہ گئے تھے۔
ویسے وہ زمین بھی ابھی مرنے والے کے نام منتقل بھی نہیں ہوئی اس کے مرے باپ سے، ان کے ہاتھوں میں تو صرف ڈنڈے تھے، ڈنڈے بھی کہاں، وہ تو کماد کے فصل سے توڑے ہوئے گنے تھے۔
۔۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے کالے کوٹ والے کو روکا اور پولیس آفیسر کو بلا کر پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟
سرکار یہ وکیل ہے، ملزمان کا وکیل صفائی، پولیس آفیسر نے بتایا۔


یعنی یہ بھی انہی کا بندہ ہوا نا جو انکی طرف سے بات کرتا ہے، کھڑک سنگھ نے وکیل کو حکم دیا کہ ادھر کھڑے ہو جاؤ قاتلوں کے ساتھ۔
اتنی بات کی اور کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیے۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے فیصلہ لکھا تھا کہ چار قاتل اور پانچواں ان کا وکیل، پانچوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔
پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی، اوے بچو، کھڑک سنگھ آگیا ہے جو قاتل کے ساتھ وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے۔


کہا جاتا ہے کہ یہ تاریخ کا ایک ان پڑھ جج تھا لیکن یہ جج جب تک اس مسند پر رہا پورے پٹیالہ میں کوئی سنگین جرم نہ ہوا اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ عدالتوں کا کام جرم کی سزا دینا ہے نہ کے تاریخ پر تاریخ دینے کے بعد امراء با عزت بری اور غرباء پھانسی کے پھندے پر۔۔
خان صاحب نے 18 اگست 2018 کو پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا انکا کہنا تھا کہ میں پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بناؤں گا لیکن ابھی تک ان کے ہاتھوں کوئی ایک ایسا کام سر انجام نہیں پہنچا جو ریاست مدینہ سے ملتا ہو، ملک میں کرپشن بڑھی ہے ملک میں جرائم زیادہ ہوئے ہیں ملک کی عدالتیں ٹھیک کام نہیں کرتی ملک کا سارا نظام درہم برہم ہو چکا ہے لیکن وزیراعظم صاحب کہتے ہیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے، ٹھیک ہے خان صاحب ہم آپ کے سچے جذبات کی دل سے قدر کرتے ہیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن چوروں سے پیسہ تو نکلوائیں انکو سزا تو دلوائیں جو ایک عام غریب چوری کرنے والے کو ملتی ہے وہی سزا  بڑے چوروں کو بھی ملے، آپ ہی نے کہا تھا کہ یہ اربوں روپے کی چوری کر کے باہر رہے انکے بچے اربوں روپوں کے فلیٹس میں رہیں یہ واپس آئے میں دیکھتا ہوں انکو کیسے رکھنا ہے،
تو خان صاحب پوری قوم صرف مدد الٰہی کی منتظر ہے کہ کب آسمان سے من و سلویٰ آئے اور ہم پیٹ بھر کر کھا سکیں آپکو سب اچھا کی رپورٹ ملتی ہے  ہماری عوام کے پاس ضرورت اشیاء خریدنے کے پیسے نہیں ہیں مہنگائی نے غریب اور امیر دونوں کی کمر توڑ دی ہے اور اوپر سے ہماری عدالتیں غریبوں کے لئے جہنم بن چکی ہیں،  کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ہمارے کالے کوٹ والے وکیل اور معزز عدالتوں کے جج جب کرسی پر بیٹھ کر غلط فیصلہ سناتے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایک اس صدی میں بابا کھڑک سنگھ پیدا ہو اور مجرم کے ساتھ وکیل اور انکا ساتھ دینے والے جج کو بھی سزائے موت کا موت حکم سنائے، ورنہ اگر یونہی چلتا رہا تو عنقریب ہماری غریب عوام نے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے کی بجائے خود فیصلے کرنے شروع کر دینے ہیں اور جب کسی ملک میں عوام خود جج بن جاتی ہے تو وہ ملک ترقی یافتہ ملک بن جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :