نور محل ( بہاولپور ) کی سیر

جمعرات 22 اپریل 2021

Abbas Ali Salik

عباس علی سالک

تاریخ شاہد ھے کہ 148 سال قبل یہ محل نواب محمد صادق پنجم نے اپنی خاتون اول " نُور" کے لیے بنوایا تھا تاہم وہ اس میں صرف ایک شب ہی قیام کر سکیں۔
دال ماش اور چاول کی آمیزش کے گارے سے اس نور محل کو تعمیر کیا گیا۔  بہاولپور صوبہ کی باتیں سن کر امیر ریاست کی پرشکوہ نشانیاں دیکھنے کے لیۓ اکثر لوگ یہاں حاضر ہوتے رہتے ہیں۔
راقم جب 14 فروری 2021ء کوایک قافلہ کے رکن کی حیثیت سے دیکھنے گیا تو معلوم ہوا کہ اب " نور محل " کو پاکستان آرمی خرید چکی ہے اور وہی  بلا شرکت غیرے اس کی  واحد مالک ہے۔


اس وقت روشنی کے لیے تین بڑے فانوس تھے جن پر روشندانوں سے روشنی پڑتی تو پورا دربار ہال جگمگا جایا کرتے تھے۔
ڈیڑھ صد برس قبل جب یہ نور محل تعمیر کیا گیا تو اس وقت بجلی کا تصور بھی نہ تھا لیکن نور محل تب بھی اپنی مثال آپ تھا۔

(جاری ہے)


آج بھی قابل استعمال فرنیچر , کرسیاں اور صوفے جن کی عمر 150 سال ہو چکی ھے دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا۔
ٹھنڈک اور ہوا کے لیے اونچی چھتوں اور روشندانوں کے علاوہ محل کی بنیادوں میں  سرنگوں کا ایک جال بچھایا گیا ہے جس میں پانی چھوڑا جاتا تھا اور مخصوص سمتوں پر بنے روشندانوں سے ہوا گذرتی جو پانی کی ٹھنڈک لیے فرش میں نصب جالیوں سے محل کے اندر پہنچتی تھی۔

یہ سرنگیں اب بھی موجود ہیں۔ یوں تصور کریں کہ اس زمانے کا جدید ترین ایئر کنڈیشند سسٹم پورے محل میں نصب تھا مزید یہ کہ اخراجات اس ٹھنڈک پر صفر تھے۔
یہ محل طویل عرصہ تک عوام کے لیۓ بند رہنےکےبعد پاک فوج اسے کھولا اور اب  اس کی امین بھی ھے۔
اعلی' فن تعمیر کا بے مثال شاہکار اپنے دور کے اسلحہ, رائج الوقت سکے , پارچہ جات اور نواب صاحب کے زیراستعمال بگھی بھی شاہانہ طرز ذندگی کی منہ بولتی تصویر بیان کرتی ھے۔


اس محل کو یہ اعزاز بھی حاصل ھے کہ قائداعظم محمد علی جناح بھی نواب آف بہاولپور کے ساتھ سنوکر کھیلا کرتے تھے۔
بادشاہ نے یہ شاندار محل اپنی جس ملکہ نور کے لیے بنایا تھا انہوں نے اس صرف ایک رات اس میں بسر کی، اگلی صبح وہ محل کے سب سے اوپر والی چھت پر گئیں تو محل کے باغات سے ملحق ایک قبرستان دیکھ کر بادشاہ کو کہا کہ آپ نے میرے لیے قبرستان میں گھر بنوادیا میں یہاں نہیں رہ سکتی۔


ایک رات کے سوا شاہی خاندان اس محل میں نہیں رہا۔
وہ آئینہ بھی ہے جو بیلجیئم سے درآمد کیا گیا۔ڈیڑھ سو سال سے زیادہ پرانا فرنیچر کرسیاں اور صوفے آج بھی قابل استعمال ہیں۔
جونہی لان میں داخل ہوں تو سامنے گرے رنگت گاڑی پہ نظر پڑتی ھے جو نواب صادق پنجم کے زیر استعمال تھی اور آپ غلاف کعبہ اسی گاڑی پہ لے گۓ تھے اور ایک غلاف کعبہ تو آبھی یہاں دیکھا جا سکتا تھا۔
دوران سفر عزیزم محمد جاوید سلہری سیالکوٹی حال مقیم حاصلپور ڈائریکٹر ریجن "سائبان اہگریکلچر بہاولپور" جو بیس سے زائدافراد پر مشتمل قافلہ کے میزبان اور گوجرانوالہ سے دوست" مقدس تنویر چیمہ ڈائریکٹر احساس پروگرام"  نے بطور گائیڈ نے پرتکلف خدمات فراہم کیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :