علم کی وسعتیں

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

Abu Bakar Siddique

ابوبکر صدیقی

اللہ نے جب کائنات کو تخلیق کیا تو یہاں محض فرشتے ہی تھے جو عبادت کر رہے تھے۔ مگر خداوند کریم نے اسباب و وجود کو متعارف کروانے کے لیے انسان کو پیدا کیا۔ اس کائنات کے پہلے انسان حضرت آدم  تھے۔ حضرت آدم مٹی سے تخلیق کیے گئے تھے جبکہ فرشتے جو کہ نوری مخلوق ہیں ان پر افضل قرار دیا۔ اللہ نے ان تمام فرشتوں کو حضرت آدم  کے آگے سجدہ کرنے کو کہا سب نے سجدہ کیا مگر تکبر میں مبتلا ابلیس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آگ کا بنا مٹی کے بنے ہوئے کے آگے جھک نہیں سکتا ۔

فرشتوں نے خدا سے آدم کی تعظیم کی وجہ پوچھی تو فرمایا گیا جو علم اس کے پاس ہے تم نہیں جانتے۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا اس کی یہ وجہ قطعاً نہ تھی کہ اسے مٹی سے تخلیق کیا گیا باقی مخلوق نوری تھی۔

(جاری ہے)

بلکہ یہ مقام انسان کو اس کے علم کے سبب ملا۔علم وہ سرمایہ ہے جس نے انسان کے وجود سے لے کرقیامت تک تمام قوتوں پر ماسوائے خدا کے حاوی کیاعلم کی بدولت انسان کو جنت سے نکال کر زمین پر بھیجا گیا تاکہ یہ دنیا کے رازوں سے پردہ اٹھا سکے علم نے کائنات کی تخلیق کی علت پیش کی، اسی علم نے کائنات کو تسخیر کرنے کا بھی ہنر فراہم کیا ۔

اللہ نے کائنات کے اوپر اور نیچے ہر جگہ معدنیات، وسائل، نباتات و حیوانات بکھیر رکھے ہیں انسان نے علم کے ذریعے نہ صرف ان وسائل کو تلاش کیا بلکہ اپنی فلاح کے لیے قابلِ استعمال بھی بنایا انسان نے علم کے ذریعے پہیہ ایجاد کیا،بیل کو گاڑی میں جوتااور سفر کو نکل گیا، پلی ایجاد کی اور گہری کھائیوں سے پانی نکالا۔ انسان نے جب علم کو بڑے پیمانے پر ڈھال بنایا تو بیماریوں کے علاج کے ذرائع دریافت ہوئے ،مصنوعی روشنی کا بندوبست کیا گیا، علاج معالجے کے بہتر سے بہتر وسائل پیدا کیے گئے۔

انسان نے زمینی سفر پر عبور حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو علم کے سمندر میں غوطہ زن کر کے پانی کی گہرائیوں تک جا پہنچا۔انسان تبھی انسان کہلایا جب اس نے تعلیم کے ذریعہ شعور کی نشوونما کی اور تربیت کی وسعتوں کو عبور کیا۔تعلیم نے آباؤ اجداد کے رائج کردہ اصولوں پر غورو غوض کیا اور اس کے بعد ان میں مناسب تبدیلیاں کر کے زندگی گزارنے کے رہنما اصول وضع کیے۔

انسان نے تعَلم کو جب اپنا شعار بنایا تو سمندر کی گہرائیوں سے ہوتا ہوا آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچا، جب انسان نے پہلی دفعہ فضا میں اپنے پر کھولے ہوں گے تو یقیناً فرشتوں نے بھی رشک کیا ہو گا۔انسان کی کامیابی نے اس کے جذبے کو پروان چڑھایا اور اس نے چاند پر قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور بالآخر کامیاب بھی لو ٹا۔ جب انسان ان تمام تر سفروں اور مسافتوں سے تھک ہار گیاتو اس نے فیصلہ کیا کہ یوں دنیا میں مارے مارے پھرنا اب ترک کر دینا چاہیے لہذا اس نے دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر وہ دن رات اسی جستجو میں بھٹکنے لگا اس کے لیے اس کو کئی جتن کرنا پڑے اس نے اس مقصد کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی بنیاد ڈالی اور پھر اس کے ایک وسیع نیٹ ورک کو سمندر کی گہرائیں سے لے کر پہاڑ کی بلندیوں تک پھیلایا۔

ان وسیع تاروں کے جال نے دنیا کے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پہاڑ،دریا، سمندر، جنگل، ریگستان، میدان، وادیاں، گاؤں،شہر، سٹرکیں، بازار، پارک، چوک،گلی گلی، قریہ قریہ، یہاں تک کہ زندہ و مردہ،جان و بے جان،زمینی و آبی،پتھریلی و ریتلی،بنجر وآباد،فضائی و خلائی تمام مخلوقات کے علم کو ان برقی شکنجوں نے اپنی قید میں لے کر اس کی رسائی انسان تک پہنچا دی اور اب انسان نے لیپ ٹاپ اور موبائل کے ذریعے دنیا کو اپنی مٹھی میں بندکر لیا اب دن ہو یا رات،اجالا ہو یا اندھیرا، شہر ہو یا گاؤں،سردی ہو یا گرمی،پہاڑ ہوں یا میدان و ریگستان جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے دنیا کے کسی کونے کی سیر کر لیتا ہے دنیا کے کسی جزیرے کی معلومات اکھٹی کرنا اس کے لیے اس کے گھر کیے لان میں بیٹھ کر چائے پینے سے بھی آسان ہے۔

علم ہی وہ ذریعہ ہے جس نے انسان کو رضائی میں بیٹھے خلائی سیر کروائی ہے۔ اس عمل کے لیے نہ اس کے آگے کوئی رکاوٹ ہے نہ اسے اضافی وقت درکار ہے۔ وہ سفر جو ہزاروں سالوں پر محیط تھا انسان نے علم کی ترسیل کے ذریعے چند منٹوں تک محدود کر دیا ہے۔ انسان نے جتنا علم حاصل کیا اسے اتنی تشنگی محسوس ہوئی علم خود علم کی ضرورت و اہمیت اجاگر کرتا ہے اور ہر ذی شعور نے اس کے فروغ کے لیے سر توڑ کوشش کی۔ علم مسلمان کے لیے یوں بھی افضل ہے کہ حکم دیا گیاکہ
'' علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد و عورت پر فرض ہے''

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :