جامعہ جھنگ کا مختصر تعارف

بدھ 28 اکتوبر 2020

Abu Bakar Siddique

ابوبکر صدیقی

کسی بھی قوم کی ترقی افرادی قوت پر انحصار کرتی ہے۔افراد اگر ہجوم کی صورت میں ہوں توسماج بگاڑ کا شکار ہوتا ہے جبکہ اگر افراد کو منظم کر دیا جائے اور اس کے افعال میں اعتدال اور ترتیب لائی جائے تو قوم وجود میں آتی ہے۔قدیم دور میں مدارس،مکتب اور صوفیاء کی درسگاہیں قوم کی انفرادی تربیت کی ذمہ دار ہوا کرتی تھیں مگر دورِ حاضر میں یہ سب مدارس اور جامعات کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا۔

چونکہ مادی اور سائنسی ترقی نے معیارِزندگی بدل کر رکھا دیا ہے اور ٹیکنالوجی نے جہاں سب چیزوں میں بدلاؤ پیدا کیا وہاں تدریس کے معیارات بھی تبدیل ہوگئے۔پاکستان میں بھی اس کا گہرا اثر ہوا دیکھتے ہی دیکھتے ہر چھوٹے بڑے شہر میں یونیورسٹی بنادی گئی تاکہ نا صرف پاکستانی بلکہ غیرمملکی باشندے بھی اس سے استفادہ حاصل کرکے نہ صرف انسانیت کی خدمت کریں بلکہ پاکستان کا نام بھی عالمی دنیا میں روشن کریں ۔

(جاری ہے)

شہرِباہو یوں توصوفیا کامسکن رہامگر یہاں تعلیمی ادروں کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ اس دھرتی کو محض گورنمنٹ کالج جھنگ ہی نمایاں اداریکے طور پر ملا اور اس واحد ادارے نے بہت سے نام پیدا کیے جن میں مجید امجد اور ڈاکٹر عبدالسلام سرِفہرست ہیں۔جب ہر شہرکوجامعات سے نوازا جارہا تھا تب ہیر کے شہر کو یونیورسٹی آف اینمیل سائنسز اور لاہور کالج فار وویمن یونیورسٹی کے سب کیمپسزہی نصیب ہوئے انہوں نے جھنگ کے تعلیمی ماحول کو بدلا تو سہی مگر پھر بھی نا قابل تلافی کمی رہی۔

جھنگ کے وہ طلباء جومالی طور پر مستحکم تھے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ہاسٹل کیاخراجات اٹھا سکتے تھے سرگودھا، فیصل آباد، لاہور اور ملتان جیسے شہروں کا رخ کر گئے۔ یہاں سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی بعدازاں انہی شہروں میں روزگار سے منسلک ہو کر اپنے خمیر سے جدا ہو گئے۔ اعلیٰ تعلیم نہ ہونے سبب معیارِ زندگی میں کچھ خاص بہترنہ تھی اور روزگار کے مواقع ناپید۔

بالآخر 2015ئمیں سیاسی اور سماجی شخصیات کی کاوشوں نے امید کی ایک کرن دیکھائی اور پنجاب گورنمنٹ سے یونیورسٹی آف جھنگ منظور کروا لی گئی مگروہ اس کو فنکشنل کرنے میں ناکام رہے۔ عوام یونہی منتظر رہی مگر نئی حکومت کے آنیسے 2019ئمیں یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا انتخاب کیا گیا۔ اور اس دھرتی کو پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر صاحب جیسی شخصیت ملی جن کی مہارت کا لوہا پنجاب یونیورسٹی اور کول اینڈ گیس ڈیپارٹمنٹ مان چکی تھی۔

ان کے آنے کے بعد یونیورسٹی آف جھنگ کی نصابی، ہم نصابی، غیر نصابی اور انتظامی سرگرمیاں تیز تر ہوتی چلی گئیں۔ یونیورسٹی نے سب سے پہلے سٹاف کی بھرتی کے لیے سینڈیکیٹ کمیٹی کی منظوری سے ماہرین پر مبنی کمیٹی کی تشکیل اور میرٹ کی بنیاد پر فکلیٹی کا انتظام کیا ساتھ ہی ساتھ کلاسسز کے اجراء کا بندوبست کیا اور پانچ شعبہ جات میں تین سو طلبا کا داخلہ یقینی بنایا۔

طلبا کی مختصر تعداد کے باوجود طلبا پر مبنی تعمیری کمیٹیاں بنائیں گئیں تاکہ طلبا کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہوتی رہے۔
جس میں ڈراما کمیٹی، فنکشن آرگنائزر کمیٹی، فوٹو گرافی کلب کے ساتھ ساتھ اینٹی ڈرگ سوسائٹی بنائی گئی۔ راقم خود جامعہ کا بی ایڈ کا طالب علم کی حیثیت سے فوٹوگرافی کلب کے پریذیڈنٹ کے طور پر فرائض کی انجام دہی اور عملی زندگی کے لیے اپنے اساتذہ کے تجربات سے استفادہ حاصل کر رہا ہے۔

یونیورسٹی کی تاریخی کامیابی تھی کہ اس نے اپنی کلاسسز کے آغاز کے پہلے ہی سمسٹرمیں قومی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ملکی سطح پر وائس چانسلرز، ڈائریکٹرز، ماہرینِ تعلیم اورسکالرزکی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس عمل نے جھنگ کا تعلیمی اور تحقیقی ماحول یکسر بدل کر رکھ دیا۔یہ جھنگ کی تاریخ کی پہلی تعلیمی کانفرنس تھی اوراس جیسی کوئی بھی کوشش ماضی میں نہیں دیکھی گئی۔

اس کے علاوہ کشمیر ڈے، اینٹی ڈرگ واک، اینٹی کرپشن سیمینار،ایڈمیشن ایکسپوکے کامیاب انعقادکے ساتھ ساتھ سیرت کانفرنس یقینی طور پر ایسے کام ہیں جو جامعات کم ازکم اپنے وجود میں آنے کے تین چار سال بعد ہی انعقاد کروانے کی اہل ہو پاتیں ہیں مگر یونی ورسٹی آف جھنگ کے اساتذہ میں یہ خوبی کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ وہ اپنے طلباء کی ذہنی صلاحیت کے فروغ اور معاشرے کے کارآمد شہری بنانے کے لیے تربیت کے تمام مواقع بروئے کار لا کر کسی لمحہ کو بھی ضائع نہیں جانے دیتے۔

انہوں نے ڈیڑھ سال کے مختصر عرصہ میں طلباء کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ اپنے سبجیکٹ کا ماہر بنانے میں نمایاں طور پر کامیابی حاصل کی ہے۔یونیورسٹی آف جھنگ اس وقت بہاؤالدین زکریا ملتان، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور،یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور،جی سی یونیورسٹی فیصل آباد،کالج آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور، یونیورسٹی آف گجرات کے علاوہ دیگر بہت سے جامعات کے سابقہ تجربہ کار اشخاص اور ماہرین پر مشتمل سٹاف ہے ساتھ ہی مقامی بے روزگارنوجوانوں سے بھی میرٹ کی بنیاد پر خدمات لے رہی ہے۔

جامعہ جھنگ کے محنتی اور قابل اساتذہ اور انتظامیہ کی محنت اور لگن نیاس شہر میں معیاری اور اعلیٰ تعلیم کی کمی کو پورا کرنے کی بھر پور سعی کی ہے۔
یونی ورسٹی آف جھنگ میں اکثر اساتذہ پی ایچ ڈی ہیں اور ملک کے نامور تعلیمی اداروں میں اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔تمام اساتذہ اپنے سبجیکٹ میں ماہر اور تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا علم باخوبی نوجوان نسل میں منتقل کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔

جامعات کا وجود سمندر کی طرح ہوتا ہے جس میں ہر طرح کی حیات اپنی بقا تلاش کرتی ہے اور جامعہ جتنی ترقی یافتہ ہوتی ہے شہر اسی قدر نمو پاتا ہے۔قریب کے شہر فیصل آباد اور سرگودھا جھنگ سے قدیم نہیں مگر ان شہروں میں کئی یونیورسٹیاں ہونے کی وجہ سے لوگو ں کا شعور بھی بہت حد تک بڑھا ہوا ہے۔مگر شہر اور شہر کے باسیوں کو دیگر شہروں میں جنگل اور جانگلی کہہ کر پکارا جاتا ہے اس کی بڑی وجہ تعلیمی و تربیتی کمی ہے۔جامعہ یونہی مستقل مزاجی سے کامیابیاں سمیٹتی رہی تو انشاء اللہ اس سے شہر کی تقدیر ضرور بدلے گی مگر مقامی افراد کا کردار اس کے کامیاب کرنے میں ریڑھ کی ہڈی طرح ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :