یونی ورسٹی آف جھنگ ۔۔۔۔۔۔کتاب دوستی کی طرف پہلا قدم

جمعہ 6 نومبر 2020

Abu Bakar Siddique

ابوبکر صدیقی

علم نے دنیا میں جو انقلاب پیدا کیا وہ اپنی جگہ کمال رکھتا ہے ۔علم نے تسخیرء کا ئنات سے لے کر کائنات کے متنوع اور بکھرے اجزاء کو یکجا بھی کیا۔علم بلاشبہ سمندر کی مانند ہے مگر اس علم کو سمیٹنا اور اپنے اندر جذب کرنا اپنے آپ میں ایک فن ہے۔دورِ قدیم میں علم کو سینہ بہ سینہ چلنے والی لوک کہانیوں کے ذریعے آئندہ نسلوں تک پہنچایا جاتا تھا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انسان کے پاس سہولیات کا فقدان تھا۔یہ لوک کہانیاں اخلاقی،معاشرتی، تمدنی اور تہذیبی شعور کی ضامن تھیں لیکن ان کا دائرہ کار محض خاص جغرافیائی حدود تک رہا۔ان لوک کہانیوں میں معلومات کا خاصہ ذخیرہ تھا مگر وہ انسان کے حافظے کا محتاج تھا۔لیکن پھر انسان نے اس علم کو دیرپا محفوظ کرنے کے لیے اپنے قریبی وسائل کا استعمال کیا، اس نے مٹی کی تختیا ں، پتھر کی سیلوں،درختوں کے پتوں یہاں تک کے جانوروں کی کھال کو بھی اس عظیم مقصد کے لیے استعمال کیا۔

(جاری ہے)

ہندوستان میں قدیم آثار کی کھدائی کے دوران یہ انکشافات بھی ہوئے کہ یہاں علم نے اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی تھیں اوور ایسی کئی کھالیں اور چٹانیں ملیں جن پر علم کے نقوش موجود تھے ۔
لیکن علم کے پھیلاؤ کے لیے یہ عمل نہ کافی اور سست تھا۔ مصریوں نے پانچ ہزار قبل ”پیپرس “نامی درخت کے گودے کی مدد سے کاغذ نما شے تیا ر کی ، یہ درخت نیل کے ساحل پر اگا کرتا تھالیکن اس سے بننے والاکاغذ کے متشابہ ضرور تھا مگر کاغذ نہ تھا۔

یوں عرصے گزرتے گئے او ر آخر کار۱۰۵ عیسوی میں چینی باشندوں نے کاغذ تیار کیا اوراس کو بطور صنعت استعمال کیااس نے علمی سرمایہ کے محفوظ کرنے میں خاصی مدد فراہم کی۔ کاغذ کی ایجا د کے بعد اسے صرف خط اور پیغام رسانی کے طور پر استعمال کیا لیکن پھر کتاب سازی کے لیے کارآمد بنایا گیا۔ کتاب نے معلومات کو جمع کیا اور اس کی ترسیل کو آسان اور یقینی بنایا۔

کتاب نے مذہب،منطق، فلسفہ،فقہ،معاشرت،ثقافت،سائنس اور فنون کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے علم کو اپنے دامن میں جگہ دی۔اب وہ علم جو حافظے کی کمزوری یا افراد کے انتقال کے ساتھ زمیں بوس ہورہا تھا اس کا تحفظ یقینی ہوگیا۔کتاب اور انسان کی جب دوستی جمی تو انسان نے اسے اپنا سب سے قریبی ساتھی پایا،افراد کی تنہائی ختم ہوئی اور وہ وقت جو چوپال یا ڈیرے پر ضائع ہوتا تھا قیمتی بن گیا۔

کتاب بینی ایسی مشق تھی جس کی بدولت آباؤ اجداد کے ماضی کے تجربات جو منوں مٹی تلے دب جاتے تھے اب سیاہی بن کر کاغذ کے اوراق کی زینت بن گئے ۔کتاب نے علم کی حدود کو ختم کیا اور ماضی کی داستانیں حال کے ساتھ گتھم گتھا ہوکر مستقبل کی آبیاری کرنے لگی۔کتاب بینی نے سات براعظموں کا فاصلہ کم کر ڈالا۔
پا کستان کے وجود کے بعد یہاں بھی چھاپہ خانے لگے اور پاکستان کی اساس و ثقافت کے ساتھ ساتھ سائنسی ،سماجی،معاشرتی،تمدنی اور مذہبی علوم پر مشتمل کتابوں کو شائع کیا گیا۔

بین الاقوامی علوم بھی وقت کی ضرورت تھی اس طرف توجہ دلوانے کے لیے کتاب میلوں کا انعقاد کیا جانے لگا۔ آ غاز میں یہ کتاب میلے صرف بڑے شہروں تک محدود تھے جن میں لاہور، اسلام آبا د ،کراچی ،ملتان، پشاور، کوئٹہ اور فیصل آباد شامل تھے۔پھر تعلیمی وسائل کی بدولت یونیورسٹیاں قائم کی گئیں جنہوں نے کتاب کے وجو د و اشاعت کو بڑھا دیا۔جن شہروں میں جامعات بنتی گئیں ان میں کتاب سے محبت اور اس کا فروغ ،کلچر کا حصہ بنتاگیا مگر وہ شہر جن تک تعلیم کی بنیادی سہولیات کا بھی فقدان تھا اس نعمت سے محروم رہے۔


جھنگ بھی انہی پسماندہ اضلاع کا حصہ ہے جس کی مٹی نے سلطان العارفین،ڈاکٹر عبدالسلام،مجیدامجد،ڈاکٹر ہر گوبند کھرٌانا جیسی علمی شخصیات کو جنم تو دیا مگر ان کا وجود بھی شہر میں کتا ب دوستی پیدا نہ کرسکا۔دراصل کتاب بینی کا شوق صرف انہی افراد تک محدود رہا جو دیگر شہروں میں تعلیم و تالیف کے کام میں مگن رہے اور بعد ازاں اپنے خمیر کے ساتھ جڑ گئے۔

شہر کے کسی بھی بڑے کتب خانہ سے کو ئی معیاری کتاب میسر نہ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جھنگ میں کتاب بینی کا شوق دیگر شہروں کی نسبت کم ہے۔کتاب کلچر کو ہو ادینے کے کئی محرکات تھے جو جھنگ کو میسر نہ آ سکے۔ تحقیقی و تنقیدی مواقع کا نہ ہونا بھی اس کی وجہ ہے،جھنگ کو صرف گورنمنٹ ڈگری کالج ہی اعلیٰ تعلیم کے لیے میسر تھااور وسائل کی کمی کی بدولت یہاں بھی تحقیق رواج نہ پا سکی ۔

ظاہری بات ہے کہ تحقیق کے لیے ورق گردانی لازمی امر ہے ،اس لیے تحقیق اور کتاب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
یونیورسٹی آف جھنگ نے تحقیقی کام کے فروغ کے لیے اپنے تمام طلبا کی تربیت کا آ غاز ابھی سے کر دیا ہے جس کہ ایک جھلک بی ۔ایڈ کی پہلی کھیپ میں دیکھی جا سکتی ہے کہ جس کہ تما م طلبا اپنی ڈیڑھ سالہ ڈگری کی تکمیل کے لیے ریسرچ کریں گے اس سے علوم کے نئے زاویوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ کتاب سے لگاؤ بھی بڑھے گا۔

یونیورسٹی چو نکہ ” ام العلوم“ کہلاتی ہے اور اس کے کام اور فیصلے دیرپا اور دور اندیش ہوتے ہیں اس لیے یونیورسٹی آف جھنگ کا وسائل کی فراہمی اور شہر میں ورق گردانی ،کتاب شناسی اور علم دوستی کے فروغ کے لیے دو روزہ ”کتاب میلی“ کا نعقاد ایک بہترین کوشش ہے۔یہ میلہ نا صرف طلبا کے لیے اہم ہے بلکہ شہر میں بھی تاریخی حیثیت کا حامل ہے کیونکہ جھنگ میں اس سے قبل ایسا کوئی” کتاب میلہ“ نہیں سجایا گیا۔

کالج آف آرٹس اینڈ سائنس،یونیورسٹی آف جھنگ میں منعقد ہونے والا یہ میلہ نومبر کی ۱۸ اور ۱۹ تاریخ کو سجے گا جس میں ملک بھر کے بہترین پبلیشرز اپنا سٹال لگائیں گے۔ اس میلے کے ذریعے یونیورسٹی آف جھنگ کتاب دوستی کے لیے اپنا فرض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کتاب کے متعلق شعور و آگاہی دینے میں بھی اپنا کردار اداکرے گی۔یوں جھنگ میں جس طرح باقی معاملات و مو ضوعات پر یونیورسٹی سبقت لے رہی ہے کتاب کلچر کی ترویج کے لیے جھنگ میں اس کا کردار ہمیشہ سرِفہرست رہے گا۔

وہ اشخاص جن کا اوڑھنا بچھونا کتابیں ہیں ان کے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ نہ صرف وہ اپنی پسندیدہ کتاب گھر کی دہلیز پر حاصل کرسکیں گے بلکہ ان کی اپنے پسندیدہ پبلیشر کے ساتھ شناسائی بھی ہوسکے گی ،اس عمل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کے درمیان روابط مضبوط ہوں گے اور کتاب کے حصول کے دوران حائل روکاوٹوں کو دور کیا جاسکے گا۔ماضی میں جھنگ کی عوام کو ایسا موقع میسر نہیں آ یا البتہ یہ ایک نئی روایت کی طرف پہلا قدم ہے جس سے شہر میں دیگر ادارے خصوصاً تعلیمی ادارے اور حکومتی تنظیمیں جو علم کے پھیلاؤ کے لیے بنائی گئیں اپنا حصہ ضرور ڈالیں گی۔

امیدِموہوم ہے کہ یونیورسٹی آف جھنگ کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے دیگر ذمہ داران بھی ایسے تعلیمی و تربیتی پر وگراموں کا انعقاد یقینی بنائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :