پھر ڈیل کے نزدیک

بدھ 11 اکتوبر 2017

Afzal Sayal

افضل سیال

پاکستانی سیاست کا راستہ اسٹبلشمنٹ کے راستے نکلتا ہے اور جو بھی سیاسی لیڈر اس راستے سے بھٹکا اسکا انجام بھیانک ہوا ۔۔ آج تک اس ملک میں کوئی بھی سیاسی لیڈر اسٹبلشمنٹ نامی جن کے سامنے نہیں کھڑا ہوسکا صرف آنکھیں دکھانا اور کسی حد تک اس جن کو بلیک میل کرنے کی کوشش ضرور کی جاتی رہی ہے لیکن پھر دونوں فریق ذاتی مفاد پر ڈیل کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "سوکن عورتوں کی لڑائی سے ہمیشہ گھر کا نقصان اور سکون تباہ ہوتا ہے" جبکہ انکی لڑائی سے ہمیشہ ریاست پاکستان کا نقصان ہوتا چلا آ رہا ہے اس وقت سویلین بالا دستی کے نعرے کے سامنے اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے نواز شریف پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ واحد لیڈر بن چکا ہے جو حکومت کےبھی مزے لے رہا ہے اور اپوزیشن کا چورن بھی خوب بیچ رہا ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔ حالات بتا رہے ہیں نواز شریف اس وقت یوٹرن لے چکا ہے اور اسکی توپوں کا رخ شہباز اینڈ نثار کمپنی نے موڑ کر اب صرف عدلیہ کی جانب کردیا ہے ماضی کے جھرکوں میں سرسری نظر ڈالیں تو ،ایم کیوایم اور مسلم لیگ نون کی اینٹی اسٹبلشمنٹ جدوجہد کی انتہا ڈیل ہوتی ہے، ہر بار ڈیل کے بعد یہ پرواسٹبلشمنٹ ہوجاتے ہیں، جن لوگوں کو اس کا تجربہ نہیں، وہ مسلم لیگ نون کے بدلتے رنگوں کو دیکھتے جائیں، آخری رنگ خاکی ہوگا
ایم کیوایم کے خلاف آپریشن ہوا، انہیں دیوار سے لگادیا گیا مگر حق پرستوں نے اپنے قائد بھائی کو ہی اپنی صفوں سے نکال کر اسٹبلشمنٹ سے سمجھوتہ کرلیا اور آج قائد بھائی اپنی توند ہلا ہلا کر آزادی آزادی کا رونا رو رہے ہیں اور انہیں کوئی سننے والا نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ نون پہلی بار اس وقت اینٹی اسٹبلشمنٹ ہوئی جب مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تھا لیکن بعد میں میاں صاحب پرویزمشرف سے معاہدہ کرکے جدہ بھاگ گئے ، دوسری بار دھرنوں کے دوران میاں نوازشریف اینٹی اسٹبلشمنٹ ہوئے اور ڈیل کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی گاڑی کا اسٹیئرنگ جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں تھا
میاں نوازشریف پانامہ کے تناظر میں اب تیسری بار اینٹی اسٹبلشمنٹ ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ بھی جلد ایک ڈیل کی صورت میں ختم ہونے والا ہے
ذرا غور کریں! اسٹبلشمنٹ کے منظورنظر فرد کو وزیراعظم بنا کر میاں صاحب جی ٹی روڈ پر فوج کو چیلنج کرتے رہے، وزیرداخلہ رینجرز کو بھگوڑا کہہ رہا ہے، یہ دباؤ میں لینے کے اقدامات ہیں کہ ہم سے ڈیل کرلو ورنہ ہم تم کو دنیا کے سامنے بدنام کردیں گے اور تم ہمیں سندھی، سرائیکی اور بلوچوں کی طرح ڈیل نہیں کرسکتے کیونکہ ہم جی ٹی روڈ کے سیاست دان اور پنجابی ہیں حکومت کی موجودہ خارجہ پالیسی اینٹی اسٹبلشمنٹ صرف ڈیل کرنے کے اسٹنٹ کے سوا کچھ نہیں اس خطرناک خارجہ پالیسی سے ملکی سالمیت کا جتنا مرضی نقصان ہوجائے ن لیگی حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ۔

"بس ڈیل ہونی چاہیے" ۔ ن لیگ اسٹبلیشمنٹ کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب نظر آ رہی ہے میجر جنرل رضوان اختر کا مستفٰی ہونا اسکی کا تتیجہ ہے ۔۔۔ شریف بردران کی کوشش ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے مقابلے میں سویلین بالا دستی جائے بھاڑ میں ۔۔ باقی ملکی سیاست پر تخت لاہور کی بالادستی قائم رہنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔ یہ وہ حقائق ہیں جو بہت جلد قوم کے سامنے آ جائیں گے بس تھوڑا انتظار کریں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :