Inferiority Complex and Road to Success ۔ قسط نمبر 1

جمعہ 18 ستمبر 2020

Ahmed Adeel

احمد عدیل

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ خود یا آپ کے حلقہ احباب میں سے کوئی شحض احساس کمتری کا شکار ہے ؟اگر ہم اپنے اطراف میں نگاہ دوڑائیں تو ہمیں شاید ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ ملیں جو کسی نہ کسی سطح پر شدید احساس کمتری کا شکار ہیں لیکن انہیں اس کا قطعی احساس نہیں یا پھر وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ․ احساس کمتری ہمارے ایسے ذات پات میں جھکڑے معاشروں میں عام ہے جس کا اظہار برملا ہو تا رہتا ہے ہم دوسروں میں عیب ڈھونڈنے کی لت میں مبتلا رہتے ہیں اور اپنی کمزرویوں پر پردہ ڈالتے ہیں سوشل میڈیا نے ہماری نئی جنریشن کی اس low self-esteemکو اور زیادہ بڑھاوہ دیا ہے یہاں ایک ایسی دنیا آباد ہے جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہر دوسری پروفائل یہ حقیقت آشکار کرتی ہے ہم اپنی اس جنریشن کی تربیت کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں بد قسمتی سے خوشامد اور چاپلوسی کا خمیر صدیوں سے ہمارے آباواجداد کے ڈی این اے کا حصہ رہا ہے اور بجائے وقت کے ساتھ اس جہالت سے چھٹکارا پانے کے ہم نے وہی خمیر جوں کا توں اپنی نئی نسل میں منتقل کیا ہے اس کا رزلٹ یہ ہے کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں ہم انسان سازی سے لاکھوں میل دور کسی دور افتادہ سیارے پر کھڑے ہیں جہاں ہر کوئی بری طرح احساس کمتری کے وائرس کا شکار بن کر دوسروں کو "تمہیں نہیں پتا میں کون ہوں"جیسی بھڑکیں مارتا دکھائی دے گا ․
یہ ایک طرح کا Disorderہے جس نے سوسائٹی کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے اس احساس میں مبتلا لوگ سب سے پہلے اپنے آپ کو دھوکہ د یتے ہوئے اپنے ادر گرد ایسی دنیا آباد کرتے ہیں جس میں وہ کمفرٹیبل محسوس کریں اور پھر دوسرں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی اس خیالی سلطنت کو ایک حقیقت سمجھیں ، بد قسمتی سے ہماری سوسائٹی ایسے لوگوں کی جھوٹی انا ، خیالی دنیا اور احساس کمتری کو زندہ رکھنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانی والی سو سائٹی ہے کیونکہMajority اسی وائرس کا شکارہے ․ سوشل میڈیا پر آپ کو ایک ایک گز لمبے ناموں کی پروفائلز ملیں گی جن میں چوہدری ، گجر، راجپوت سے لے کر ہر وہ ذات ملے گی جس کا ذکر شاید کبھی قرون و سطی میں ہوا ہو ، ان ذاتوں کے complexسے نکل کر آگے خوشامد کا پل نظر آئے گا جہاں ہر ایک نے اپنے لیول کے مطابق اپنے سیاسی دیوتا کا بت سجایا ہوا ہے اور اس بت کے پاوتر قدموں میں وہ خوشامدو چاپلوسی کے چراغ روشن کیے بیٹھا ہے ، اس سے اگلا پڑاؤ جہالت کا آخری درجہ ہے جہاں مذہب سے لے کر سیاست تک سب کچھ ڈسکس ہو رہا ہے لیکن بزبان گالی گلوچ، ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی چاہت میں گھری ، لاجک، نالج ، اخلاقیات سے دور وہ روحیں جو شاید انسانیت سے کئی نوری سال کے فاصلے پر کھڑی اپنے آپ کو لعن طن کرتے ہوئے ماتم کناں ہیں ان روحیں کی ڈوریں کمرے کے درجہ حرارت سے بھی کم iqرکھنے والے سیاسی مداریوں اور چھ چھ فٹ لمبے ناموں والے ان مذہبی پروہتوں کے اقتدار کے سروں سے جڑی ہیں جن کے نزدیک ان کی تخلیق کا ایک ہی مقصد تھا کہ اس مملکت خداداد کی اینٹیں تک چبا جائیں ․
ہم میں وہ لوگ جو دوسرے ملکوں میں منتقل ہو چکے نہیں یا ٹریول کرتے رہتے ہیں شاید دیکھتے ہوں کہ وہاں ان ملکوں میں ایسی کوئی وبا نہیں ، سیاست سے لے کر مذہب تک سب کچھ لوگوں کاپرسنل ایشو ہے نہ وہاں سیاستدانوں کی پرستش کی جاتی ہے نہ چوہدراہٹ کا کوئی گھٹیا تصور ہے ، نہ "تم نہیں جانتے میں کون ہوں"جیسی اخلاقیات سے گری ہوئی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور نہ ہی سو شل میڈیا پر فرقے بازی کا کوئی تصور ہے شاید اسی لیے ہمارے میڈیا فیم مذہبی لوگوں کے اپنے بچے بھی مدرسوں میں جانے کی بجائے یورپ، امریکہ کے سکولوں کالجوں میں پڑھتے ہیں کیونکہ ہر انسان اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ وہ chooseکرتا ہے جو اس کی نظروں میں سب سے بہتر ہوتا ہے اسی بہتری کی تلاش میں سرگرادں ہم اپنی کم علمی یا معصومیت میں کبھی جگاڑئیے سیاستدانوں کے ہتھے چڑھتے ہیں تو کبھی غیر قانونی طریقوں سے دوسرے ملکوں کی ڈنکیاں لگاتے ہیں ، جو کچھ پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ Motivational Speakers کے انگلش سے اردو میں ٹرانسلیٹ کیے ہوئے لیکچروں میں اپنا گول ڈھونڈتے ہیں لیکن کیا ہم اسی لیے پیدا ہوئے ہیں کہ ایک احساس کمتری میں ڈوبی ہوئی سوسائٹی میں اپنا مقام تلاش کرنے کی جدو جہد میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں ؟ اصل میں ایسا بالکل نہیں ہے Road to Successآسان نہیں لیکن اتنا مشکل بھی نہیں جتنا ہم نے اسے بنا دیا ہوا ہے ، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کامیابی اتنی مشکل نہیں تو لوگ کامیابی کے لیے خوار کیوں ہو رہے ہیں؟ اسی سوال سے ہمارا سفر شروع ہو تا ہے جس میں سب سے پہلی چیز اپنے آپ کو احساس کمتری سے نکال کر Normailtyمیں لانا ہے جہاں نہ کوئی آپ سے کمتر ہے اور نہ ہی Superiorاصل میں یہ پہلا مرحلہ سب سے مشکل ہے جہاں ہمیں اپنی انا، سیاسی وابستگیاں، اور سوسائٹی کے نارمل سے نکلنا ہے اپنے یاروں دوستوں، رشتے داروں کے طنز کے باوجود ایک ڈائرکیشن طے کرنی ہے (جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :