Well Done Pakistan Post and EMS

منگل 8 دسمبر 2020

Ahmed Adeel

احمد عدیل

آج کا کالم صرف اور صرف فیڈرل منسٹر اور جوش جذبات میں اپوزیشن کو لتاڑنے والے مراد سعید صاحب اور ان کے محکمے پاکستان پوسٹ کے نام ہے کہ انہوں کہ کس کمال سے پاکستان پوسٹ کو اس لیول تک پہنچایا ہے جہاں ہزاروں روپے EMS (Express Mail Service) کے دے کر اورسیز پاکستانی ترستے رہتے ہیں کہ ان کی چیزیں انہیں روز حشر سے پہلے وصول ہو جائیں گی یا نہیں .

(جاری ہے)

خوش قسمتی سے میں نے ہمیشہ اپنے اداروں سے اجتناب کیا ہے کیونکہ ہم پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستان کی محبت میں گرفتار پاکستانی جب بھی کسی پاکستانی ادراے پر اعتبار کرتے ہیں وہاں سے ہمیں سوائے مایوسی اور نقصان کے کچھ نہیں ملتا ․ کتابوں سے ایک گہرا رشتہ ہونے کی وجہ سے پچھلے ماہ میں نے کچھ سو سے زائد کتب آرڈر کر دیں․ ایک دوست نے بک کارنر جہلم کی ویب سائٹ کا بتایا اور جب وہ ویب سائٹ وزٹ کی تو وہاں وہ سب کچھ تھا جو کسی بھی کتاب سے محبت کرنے والے کے لیے کسی جنت سے کم نہیں ․ پاکستان میں کم از کم بک کارنر جہلم جیسا کوئی ادارہ میرے علم میں نہیں جو اس طرح کی بہترین بکس پبلش کرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی بہترین کسٹمر سروس بھی دیتا ہو ․ اس کا نتیجہ ان کتابوں کے آرڈر کی صورت میں نکلا جن کی ایک عرصے سے تلاش تھی ․ اب اگلا مرحلہ ان بکس کو پاکستان سے منگوانے کا تھا جس کے لیے بڑے بھائی نے اسلام آباد جی پی او کا رخ کیا جہاں سے وہ کہانی شروع ہوئی جو روئے زمین پر عرصہ دراز سے ہماری پہچان ہے․ EMSکلرک نے کہا کہ آپ تیس کلو سے زیادہ وزن باہر نہیں بھیج سکتے لیکن جب ان کے علم میں یہ بتاتے ہوئے اضافہ کیا گیا کہ تیس کلو سے زیادہ ہو تو آپ علیحدہ consignmentبنا دیں اس طریقے سے آپ پچاس ہزار کلو بھی sendکر سکتے ہیں ․ پھر فرمایا گیا کہ Affidavit لے کر آئیں کہ یہ کتابیں واقعی آپ بھیج رہے ہیں ․ GPO کے باہر بیٹھے ہوئے اشٹام نویس سے مبلغ ۰۰۳ روپے ادا کر کے Affidavitلیا گیا ․ اس کے بعد کتا بوں کے ہارڈ کور میں سوئیوں سے سوارخ کر نے ، صفحات کو زبان سے چاٹنے اور سونگھنے کا مرحلہ شروع ہو ا کہ کہیں کتا بوں میں ڈرگز نہ ہوں․ کیپٹل کے مین GPOمیں ایک سکینر تک کی سہولت موجود نہیں جو چیزوں کو سکین کر سکے․ چھ گھنٹے کی اس ذلالت نما چیکنگ کے دوران معتدد مرتبہ سٹاف کی طرف یہ انداز اپنایا گیا کہ بھیجنے والا کچھ پیسوں کی آفر کرے اور کام ختم ہو لیکن جب رشوت کی کوئی آس نہیں لگی تو آخر کار تین بجے مبلغ ایک ہزار روپیہ دینے کے بعد پیک ہو کردونوں Consignments بک ہو گئیں․ ٹوٹل پچپن کلو کی دو علیحدہ علیحدہ Consignmentsبنائی گئیں اور چوبیس ہزار شپنگ فیس اور چار ہزار نیا پاکستان GSTادا کرنے کے بعد ٹریکنگ نمبرز ایشو ہو گئے ․ صبح نو بجے شروع ہونے والی کاروائی 3:15منٹ پر ختم ہوئی # رات کو آٹھ بجے بھائی کے موبائل پر کال آتی ہے کہ میں GPOسے شبیر ہاشمی بات کر رہا ہوں آپ کی بکس نہیں جا سکتی آپ مجھے آ کر ملیں ․ ملنے پر جناب نے بتایاکہ آپ ہمیں کتابوں کے بلز اور ISBNنمبرز دیں، موصوف نے زندگی میں کورس کی کتابیں کو رٹا لگانے کے علاوہ اگر کبھی کوئی کتاب پڑھی ہوتی تو شاید ان کے علم میں ہوتا کہ کتابوں کا ISBNنمبر ہر کتاب پر لکھا ہوتا ہے اور ISBNکا نمبر کا پوسٹ سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ․ خیر ان کو کتب کے pdfبلز دکھائے گئے جو کہ انہوں نے کہا دھندلے ہیں آپ پرنٹ کروا کر لائیں پھر میں ساری پیکنگ دوبارہ کھول کر دیکھوں گا اور بلز کو ISBNنمبرز سے میچ کروں گا ․ جو کچھ موصوف کی طرف سے فرمایا گیا سوائے جہالت اور لاعلمی کے اور کچھ نہیں اور اس سب کا ایک ہی مطلب تھا کہ مجھے پیسے دیں جو کہ نہ دئیے گئے اور نہ کبھی دئیے جائیں گے ․ آج یہ کالم پبلش ہونے تک بھی بکس اسلام آباد GPOمیں ہیں اور میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہوئے بکس پر فاتحہ پڑ چکا ہوں ․ نئے پاکستان والوں کو ان کا ٹیکس مل گیا ہے EMSکو ان کے شپنگ چارجز اور ہمارے محترم شبیر ہاشمی صاحب وہ بکس شاید ردی میں میں بیچ دیں کیونکہ جس انسان نے زندگی میں کوئی ایک کتاب بھی پڑھی ہو وہ کم از کم کتاب کو عزت ضرور دے گا جو کہ انہوں نے نہیں دی ․ آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ میں نے اپنے آپ کو خوش نصیب کیوں کہا ؟ وہ اس لیے کہ پاکستان میں جتنی بڑی بڑی وارداتیں اورسیز پاکستانیوں سے ہوتی ہیں اس لحاظ سے یہ ایک لاکھ روپے کا نقصان کوئی معنی نہیں رکھتا ․ اس نقصان نے اس سسٹم کو مزید ننگا کر دیا ہے جسے پچھلے ڈھائی سال سے نئے کپڑے پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے ․
زندگی میں بہت چھوٹے چھوٹے تلخ تجربے آپ کو اپنی زمین اور مٹی سے دور کرتے رہتے ہیں اور ایک دن ایسا آتا کہ جب آپ گیو اپ کر دیتے ہیں کہ اب اور نہیں․ کرپشن اس سوسائٹی کے DNAکا حصہ بن چکی ہے جس پر ہر آدمی اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کے ہر وہ ناجائز حربہ اپنایا جاتا ہے جو انسانیت کی معراج تو درکنا ر بے حسی اور درندگی سے بھی کہیں پرے ہو․ آخر میں محترم مراد سعید صاحب کو مبارک با د کہ انہوں نے اس محکمے کو ان بلندیوں تک پہنچایا ہے جہاں پہنچنے کے لیے کرپشن کی کمند ضروری ہے اور عزت ماآب محترم شبیر ہاشمی جیسے لوگوں کو سلیوٹ جو اور سیز پاکستانیوں سے اردو لٹریچر کو چھڑاونے کی مہم میں اپنے کردار کو بخوبی نبھا رہے ہیں ․ پاکستان پوسٹ کے ان سورماوں کو بھی سلام جو کسی بھی فون کال یا ای میل کا جواب دینا اپنی شان کے منافی سمجھتے ہیں اور محترم وزیر اعظم کو اقبال بلند ہو جنہوں نے ریاست مدینہ میں انصاف کی بجائے کرپشن اور نا انصافی کے بہتے ہوئے دریاوں کی روانی میں مزید تندی لانے کی اقدامات کیے ہیں جن سے ہر آدمی فیض یاب ہو رہا ہے․

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :