
تب تک تو میں بوڑھا ہو جاؤں گا
جمعرات 10 جون 2021

احمد عدیل
میں بھی آپ کی طرح نارمل انسان ہوں بلکہ پانچ سال پہلے تک بالکل نارمل تھا جب تک کہ میں نے Early ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ نہیں کیا ۔ وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لینا کوئی بڑی بات نہیں بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں لیکن میرے ریٹائرمنٹ لینے کے فیصلے کے پیچھے میرا وہ خواب تھا جس نے بتیس سال میرا پیچھا کیا۔
(جاری ہے)
وہ خواب تھا کریمنالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے کا۔
لیکن زندگی کی مصروفیت نے کبھی اتنا موقعہ ہی نہیں دیا کہ میں اس خواب کو پورا کر سکوں ۔ میں امریکن ہوں اس لیے امریکن ڈریم میں ہی زندگی گزار دی۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جاب، بینک سے لون لے کر لیا ایک گھر ، قسطوں پر لی ہوئی دو گاڑیاں، ایک بیوی تین بچے، گھر، گاڑی،بجلی،پانی،گروسری، بچوں کی فیس، سالانہ ہالیڈے پلان بس زندگی اسی میں گزر گئی جب تک میں نے اپنے فزیوتھراپسٹ کی بات پر کان نہیں دھرا۔وہ دن بھی عام دنوں جیسا تھاجب میں شیڈول وزٹ پر اپنے فزیو تھراپسٹ کے ہاں گیا ۔ مارننگ شیرف، بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو، اس نے ہمیشہ کی طرح وہی سوال کیا جو وہ پچھلے اکیس مہینے سے ہر وزٹ پر کرتا تھا ۔ اب عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں خواب بھی انسان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اسی لیے تمہیں وزٹ کرتا ہوں۔ میرے جواب پر ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آئی ۔ شیرف، خواب کبھی انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتے لیکن ہم خواب دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں یہ سمجھ کر کے اب ہم بوڑھے ہوگئے ہیں ۔ وہ فزیو تھراپسٹ کم اور شکل سے فلسفی زیادہ لگتا تھا۔ اس نے اپنے جواب کے بعد خاموشی کا یک وقفہ لیا اور پھر بولامیں چھتالیس سال کا ہوں اور فزیو تھراپسٹ کا ڈپلومہ میں نے تین سال پہلے لیا ہے کیونکہ یہ میرا خواب تھااور خوابوں کی کوئی ایج نہیں ہوتی۔ مجھے اس سے تھوڑا سا حسد محسوس ہوا لیکن میں نے اس حسد کو چھپاتے ہوئے اسے کہا کہ تم لکی ہو جو اپنے خواب کی تکمیل تک پہنچ گئے میں بتیس سال سے یہی خواب لیے بوڑھا ہو گیا ہوں کہ میں کریمنالوجی میں پی ایچ ڈی کرلوں لیکن نہیں کر سکا ۔ اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بڑے نارمل لہجے میں گویا ہوا کہ اب کر لو۔ میں نے اسے مذاق سمجھتے ہوئے کہا ہاں اب جب میں ستاون سال کا ہوں اب پی ایچ ڈی میں ایڈمیشن لوں ؟ اپنی ڈگری پوری ہونے تک میں باسٹھ سال کا ہو جاؤں گا۔ اس نے میری طرف دیکھے بغیر وہ جملہ کہا جس کی وجہ سے آپ لوگ آج مجھے دیکھ اور سن رہے ہیں۔ شیرف معاف کرنا اگر تمہیں میری بات بُری لگے تو لیکن باسٹھ کے تو تم ویسے بھی ہو جاؤ گے چاہے پی ایچ ڈی کرو یا نہ کرو۔ میں نے زندگی میں کبھی اس بات پر غور نہیں کیا تھا کہ ہم انسان یہ سوچتے ہوئے کئی خواب کھو دیتے کہ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں یا جب تک میں اپنا گول اچیو کروں گا تب تک میں بوڑھا ہو جاؤں گا ۔ زندگی نے گزرتے رہنا ہے چاہے آپ اپنی خواہشیں پوری کریں یا نہ کریں اور لوگوں نے آپ کو پاگل سمجھتے رہنا ہے ۔ مجھے اپنے ٹاؤن کے پہلے پاگل ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور جب تک میری ڈاکٹریٹ مکمل نہیں ہو گئی میں اپنے ساتھیوں اور گھر والوں کی نظروں میں پاگل ہی رہا ہوں ۔ میں نے جب Earlyریٹائرمنٹ کے لیے اپلائی کیا تو سب سے پہلی مخالفت میری اپنی فیملی نے کی تھی ۔میرے بیوی بچوں کے لیے یہ ایک صدمہ تھا کہ میں ایک آنر ایبل جاب چھوڑ کر بڑھاپے میں کریمنالوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے جارہا ہوں میرے ڈیپارٹمنٹ کے ساتھی مجھے پاگل سمجھتے تھے لیکن میں نے اپنا خواب پورا کیا اور آج نہ صرف میرے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے بلکہ میں چار یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتا ہوں اور آپ جیسے ہزاروں لوگوں سے اپنی کہانی شےئر کرتا ہوں ۔
ڈاکٹر جیسن کی کہانی سن کر میں سوچ رہاتھا کہ ہم مشرقی لوگ پچاس سال کی عمر میں اپنے آپ کو بوڑھا خیال کرتے ہے اور باقی کی زندگی اپنے نہ سلجھنے والے مسائل کو سلجھانے میں گزار دیتے ہیں یا پھر اپنی اولاد کی شادیوں پر اپنی زندگی کی کمائی لوٹا رہے ہوتے ہیں اور اولادیں والدین کی کمائی پر عیاشی کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ ڈاکٹر جیسن بنتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو لگی بندھی روٹین سے ہٹ کر ز ندگی گزارتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو دوسروں کا طنز برداشت کرتے ہوئے اپنے خوابوں کا پیچھا کرتے رہتے ہیں؟ شاید 0.5%لوگ بھی آپ کو ایسے نہ ملیں۔ زندگی گزر رہی ہے اور اس نے گزرتے جانا ہے خواہ آپ رکے رہیں یا چلتے جائیں اس لیے سیاست پر گفتگو کرنے، پٹواری، جیالا، یوتھیا یا چیلا بننے کی بجائے اپنی زندگی پر فوکس کریں ۔ اقوال زریں، صوفیوں کے اقوال، بڑوں کی باتیں جیسی لاکھوں پوسٹس اور کلپ دیکھنے یا پڑھنے سے آپ کے اندر تب تک کوئی بدلاو نہیں آئے گا جب تک آپ اپنے اندر خود بدلاؤ لانا نہیں چاہتے ۔ آج کی اس جدید دنیا میں رہتے ہوئے اگر آپ کے پاس سمارٹ فون ہے اور آپ سوشل میڈیا کے استعمال کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ دس بیس ہزار والی جاب یہ سوچ کر نہیں چھوڑ رہے کہ آپ یہ جاب چھوڑ کر جائیں گے کہاں تو پھر آپ واقعی اسی جاب کے قابل ہیں۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی نہیں بلکہ تھوڑی سی سمجھ بوجھ ، تھوڑے سے رسک، معمولی سی ہمت اورصحیح سمت کا پتا ہونا ہی کافی ہے ۔ ہر انسان کے اندر ایک ڈاکٹر جیسن ہوتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اس ڈاکٹر سے متعارف ہوئے بغیر ہی روکھی سوکھی زندگی گزار کے آگے نکل جاتے ہیں کوشش کریں آپ ان روکھی سوکھی زندگی گزار نے والوں میں سے نہ ہوں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احمد عدیل کے کالمز
-
تصویر کا دوسرا رخ
بدھ 7 جولائی 2021
-
تب تک تو میں بوڑھا ہو جاؤں گا
جمعرات 10 جون 2021
-
آپ کے آپشنز کیا ہیں؟
جمعہ 4 جون 2021
-
ڈونٹ گیو اپ
ہفتہ 29 مئی 2021
-
واہ میرے راہبرواہ
منگل 18 مئی 2021
-
Rootless People
بدھ 16 دسمبر 2020
-
Well Done Pakistan Post and EMS
منگل 8 دسمبر 2020
-
ہماری بے بسی اور ہماری سوچ
منگل 27 اکتوبر 2020
احمد عدیل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.