ہماری بے بسی اور ہماری سوچ

منگل 27 اکتوبر 2020

Ahmed Adeel

احمد عدیل

ہماری اوقات یہ ہے کہ ہم یہودی کی فیس بک اور عیسائی کی انسٹا گرام، ٹوئٹر استعمال کرتے ہوئے فرانسیسی صدر پر لعنت بھیج رہے ہیں ۔ پچاس اسلامی ممالک میں کوئی اس قابل بھی نہیں کہ کم از کم اپنا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہی بنا سکیں جہاں مسلمانوں کی آواز بغیر سنسر کیے سنی جا سکے لیکن جن لیڈروں کے باتھ روم بھی سونے کے ہوں اور عوام انہیں دیوتا مانتی ہو ایسے لیڈر اور ایسی قومیں صرف ماتم کر سکتی ہیں ہمارے سو کالڈ تیل میں بھیگے ہوئے عر ب بھائی جو ہمیں منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے آج فرنچ صدر کے پو سٹر جلا رہے ہیں صرف اس لیے کہ یہی سب کچھ ان کے بس میں ہے جب عزت گروی رکھ دی جائے تو پھر اپنی ذلت پر ماتم نہیں کرتے ہمارے وہ مولوی جو اپنے خطبوں کے ذریعے آگ لگا دیتے ہیں آج نہایت بے بسی اور حسرت سے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اقوام متحدہ میں جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں اور توہین رسالت پر پابندی کا قانون بنایا جائے۔

(جاری ہے)

کیا عمران خان یہ کر سکتے ہیں؟ زمینی حقیقت کچھ او ر کہتی ہے۔ عمران خان نے یو این او میں جا کر کشمیر کا مقدمہ لڑا ، انڈیا کو بے نقاب کیا ، توہین رسالت کے زریعے جس طرح مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے اس پر بات کی، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کیا دنیا نے ہمارے بات پر کان دھرے؟ دنیا نے تو ہمیں اس قابل کبھی سمجھا ہی نہیں کیونکہ ہم ان سے خیرات لیتے ہیں اور اسی خیرات سے ہمارے مفرور لیڈران خیرات دینے والوں ملکوں میں اپنی جائیدادیں بناتے ہیں لیکن جس انڈیا کے خلاف ہم یو این او میں گئے اسی انڈیا نے صرف اس سال دو ہزار بیس میں 1595دفعہ سرحد پر سیز فائر کی خلاف ورزی کی اور حکومت نے انڈین سفیر کو بلا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور کئی دفعہ اسی احتجاج کے دوران انڈین سرحدی فورسز پاکستانی سرحدی دیہاتوں پر فائرنگ کرتی رہیں جبکہ ہمارے برعکس چائینہ نے کوئی احتجاج نہیں کیا جب انڈین فورسز نے ان کے ساتھ پاکستان والی گیم شروع کی ۔

چاہیے تو یہ تھا کہ چائینہ بھی احتجاج کرتا اور اب کے مار کے دکھا والی پالیسی پر عمل کرتا لیکن چونکہ ان کی غیرت گروی نہیں ان کے لیڈر سمیت اپنے اہل و عیال کے مفرور نہیں نہ ہی ان کی عوام وعظ و نصیحت اور بے حسی کی پستیوں میں زندہ ہے اس لیے انہوں نے وہ زندگیاں چھین لیں جو ان کی زمین پر اپنا جھنڈا لہرانے کاخواب ددیکھتی تھیں یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جو زندہ قوموں کو مردوں سے ممتاز کرتی ہے ۔


اب آ جائیں اسرائیل کی طرف جو کہ آج کل ہر بحث کا موضوع ہے کہ یہودیوں کے ہالوکاسٹ پر بات کرنا یا اس کو رد کرنا ایک جرم ہے بالکل ایسا ہی ہے لیکن ایسا ہونے میں کسی احتجاج ، مار پیٹ، گاڑیاں جلانے، نعروں، شدت پسندی، یا اپنی بے بسی پر ماتموں کا کوئی ہاتھ نہیں ۔ یوں تو ایک پوری لسٹ ہے ان ملکوں کی جہاں ہالو کاسٹ کو چیلنج کرنا ایک جرم ہے لیکن یہاں صرف فرانس کی بات کریں تو 13 جولائی 1990میں ہالو کاسٹ کو رد کرنے یا اس کو چیلنج کرنے کو انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں شمار کیا گیا۔

کیوں؟ اس کیوں کا جواب اسرائیل کی اس طاقت اور ٹیکنالوجی میں پوشیدہ ہے جو اس کے ہمسایہ عرب ملکوں کے اجڈ، کرپٹ اور نااہل عوام اور حکمرانوں کی سمجھ سے بالاتر ہے 14 مئی 1948کو فلسطین پر ناجائز قبضے سے شروعات کرنے والے اس ملک میں کیا ہے جو صدیوں کی روایات، کلچر، تاریخ رکھنے والے اس کے ہمسایوں میں نہیں ؟ گوگل پر جا کر صرف Israel Inventions ٹائپ کریں تو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ ہالو کاسٹ پر بات کرنا کیوں جرم ہے اور دنیا کے دوسرے بڑے مذہب اسلام کے ماننے والوں کی دل آزاری جرم کیوں نہیں۔

فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہے لیکن مصر، لبنان، اردن تو صدیوں سے آزاد تھے وہ اس لیول تک کیوں نہیں پہنچ سکے جہاں ایک چھوٹا سا دوسروں کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والا ملک پہنچ گیا؟ صرف اور صرف ہم مسلمانوں کی جہالت، جدید تعلیم سے دوری، لالچ اور خود غرضی کی وجہ سے، اس لیے ان کے ڈرونوں اور توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعاوں کرنے یا ان انہی کی فیس بک پر ان پر لعنت بھیجنے کی بجائے اس بات کو سمجھیں کہ اس سے ان کا کچھ بگڑنے والا نہیں الٹا جتنی زیادہ لعنتیں شئیر ہوں گی فیس بک اشتہاروں کے زریعے اتنے زیادہ پیسے کمائے گا۔

ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے دین کے ساتھ علم کا جھنڈا تھامے رکھا تب تک ہم الفارابی، ابوالفادی حاراوی، ابن طوفالی، ابن خلدون ، شمس الدین سمر قندی اور رومی جیسے تاریخ سازاور اپنے عہد کے ساتھ ہم اہنگ لوگ پیدا کرتے رہے آج جب ہم جدید علم کے پیچھے جہالت اور شدت پسندی کے گنڈاسے لے کر دوڑ رہے تو ہمارے نصیب میں سیاست کی غلاظت سے لھتڑے مذہبی رہنماوں سے لے کر کھیرا مبارک کاٹنے کے طریقے بتانے اور پٹرول کی ٹینکی میں برکت ڈالنے والے رہنما ہیں اور جیسے رہنما ہیں ویسے ہی پیروکار۔

فیس بک پر لعنتیں ٹائپ کرنے سے اچھا ہے کہ ٹھوڑی سے غیرت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈرامے بازی کے لیے نہیں بلکہ دل سے فرانس کی ان سب مصنوعات کا بائیکاٹ کریں جو آپ کی روزانہ کی زندگی کا حصہ ہیں ۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں فرانسیسی پراڈکٹ کا اربوں ڈالرز کا شےئر ہے اگر آج دس مسلم ممالک بھی ان پراڈکٹ کا بائیکاٹ کر دیں تو شاید حالات بدل جائیں لیکن ایسا ہو گا نہیں کیونکہ یہی ہماری مسلمانوں کی اور خاص کر عرب بھائیوں کی روایات رہی ہیں جس کا زندہ ثبوت ہمارے عرب بھائیوں کی کشمیر کرفیو پر خاموشی اور مودی کی سپورٹ کی صورت میں سامنے آیا تھا لیکن ہم اپنے لیول پر جو کوشش ہو سکے وہ کر سکتے ہیں اس سچائی کو سمجھتے ہوئے کہ دنیا سے عزت کروانے اور اپنی بات منوانے کے لیے دوسروں کے گلے کاٹنے کی نہیں حکمت عملی اور سیاسی و معاشی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :