
ہماری بے بسی اور ہماری سوچ
منگل 27 اکتوبر 2020

احمد عدیل
(جاری ہے)
اب آ جائیں اسرائیل کی طرف جو کہ آج کل ہر بحث کا موضوع ہے کہ یہودیوں کے ہالوکاسٹ پر بات کرنا یا اس کو رد کرنا ایک جرم ہے بالکل ایسا ہی ہے لیکن ایسا ہونے میں کسی احتجاج ، مار پیٹ، گاڑیاں جلانے، نعروں، شدت پسندی، یا اپنی بے بسی پر ماتموں کا کوئی ہاتھ نہیں ۔ یوں تو ایک پوری لسٹ ہے ان ملکوں کی جہاں ہالو کاسٹ کو چیلنج کرنا ایک جرم ہے لیکن یہاں صرف فرانس کی بات کریں تو 13 جولائی 1990میں ہالو کاسٹ کو رد کرنے یا اس کو چیلنج کرنے کو انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں شمار کیا گیا۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب اسرائیل کی اس طاقت اور ٹیکنالوجی میں پوشیدہ ہے جو اس کے ہمسایہ عرب ملکوں کے اجڈ، کرپٹ اور نااہل عوام اور حکمرانوں کی سمجھ سے بالاتر ہے 14 مئی 1948کو فلسطین پر ناجائز قبضے سے شروعات کرنے والے اس ملک میں کیا ہے جو صدیوں کی روایات، کلچر، تاریخ رکھنے والے اس کے ہمسایوں میں نہیں ؟ گوگل پر جا کر صرف Israel Inventions ٹائپ کریں تو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ ہالو کاسٹ پر بات کرنا کیوں جرم ہے اور دنیا کے دوسرے بڑے مذہب اسلام کے ماننے والوں کی دل آزاری جرم کیوں نہیں۔ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہے لیکن مصر، لبنان، اردن تو صدیوں سے آزاد تھے وہ اس لیول تک کیوں نہیں پہنچ سکے جہاں ایک چھوٹا سا دوسروں کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والا ملک پہنچ گیا؟ صرف اور صرف ہم مسلمانوں کی جہالت، جدید تعلیم سے دوری، لالچ اور خود غرضی کی وجہ سے، اس لیے ان کے ڈرونوں اور توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعاوں کرنے یا ان انہی کی فیس بک پر ان پر لعنت بھیجنے کی بجائے اس بات کو سمجھیں کہ اس سے ان کا کچھ بگڑنے والا نہیں الٹا جتنی زیادہ لعنتیں شئیر ہوں گی فیس بک اشتہاروں کے زریعے اتنے زیادہ پیسے کمائے گا۔ ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے دین کے ساتھ علم کا جھنڈا تھامے رکھا تب تک ہم الفارابی، ابوالفادی حاراوی، ابن طوفالی، ابن خلدون ، شمس الدین سمر قندی اور رومی جیسے تاریخ سازاور اپنے عہد کے ساتھ ہم اہنگ لوگ پیدا کرتے رہے آج جب ہم جدید علم کے پیچھے جہالت اور شدت پسندی کے گنڈاسے لے کر دوڑ رہے تو ہمارے نصیب میں سیاست کی غلاظت سے لھتڑے مذہبی رہنماوں سے لے کر کھیرا مبارک کاٹنے کے طریقے بتانے اور پٹرول کی ٹینکی میں برکت ڈالنے والے رہنما ہیں اور جیسے رہنما ہیں ویسے ہی پیروکار۔ فیس بک پر لعنتیں ٹائپ کرنے سے اچھا ہے کہ ٹھوڑی سے غیرت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈرامے بازی کے لیے نہیں بلکہ دل سے فرانس کی ان سب مصنوعات کا بائیکاٹ کریں جو آپ کی روزانہ کی زندگی کا حصہ ہیں ۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں فرانسیسی پراڈکٹ کا اربوں ڈالرز کا شےئر ہے اگر آج دس مسلم ممالک بھی ان پراڈکٹ کا بائیکاٹ کر دیں تو شاید حالات بدل جائیں لیکن ایسا ہو گا نہیں کیونکہ یہی ہماری مسلمانوں کی اور خاص کر عرب بھائیوں کی روایات رہی ہیں جس کا زندہ ثبوت ہمارے عرب بھائیوں کی کشمیر کرفیو پر خاموشی اور مودی کی سپورٹ کی صورت میں سامنے آیا تھا لیکن ہم اپنے لیول پر جو کوشش ہو سکے وہ کر سکتے ہیں اس سچائی کو سمجھتے ہوئے کہ دنیا سے عزت کروانے اور اپنی بات منوانے کے لیے دوسروں کے گلے کاٹنے کی نہیں حکمت عملی اور سیاسی و معاشی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احمد عدیل کے کالمز
-
تصویر کا دوسرا رخ
بدھ 7 جولائی 2021
-
تب تک تو میں بوڑھا ہو جاؤں گا
جمعرات 10 جون 2021
-
آپ کے آپشنز کیا ہیں؟
جمعہ 4 جون 2021
-
ڈونٹ گیو اپ
ہفتہ 29 مئی 2021
-
واہ میرے راہبرواہ
منگل 18 مئی 2021
-
Rootless People
بدھ 16 دسمبر 2020
-
Well Done Pakistan Post and EMS
منگل 8 دسمبر 2020
-
ہماری بے بسی اور ہماری سوچ
منگل 27 اکتوبر 2020
احمد عدیل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.