واہ میرے راہبرواہ

منگل 18 مئی 2021

Ahmed Adeel

احمد عدیل

کل ایک خبر نظر سے گزری ہے جس نے اس ملک کے مذہبی رہنماؤں کا وہ چہرہ بے نقاب کیا ہے جو آج تک جہاد کے کئی پردوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا ․ نائب امیر جماعت اسلامی جناب لیاقت بلوچ نے پر سوں بڑے فخر سے یہ ٹویٹ کی ہے کہ الحمد اللہ میر ے بیٹے احمد جبران بلوچ نے ٹورنٹو آف یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی تھیسزکے ڈیفنس کا مر حلہ کامیابی سے مکمل کر لیا ہے ․ لیاقت بلوچ کا جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر پر جو بیانات ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں آج بھی پنجاپ یونیورسٹی میں جمعیت کی غنڈہ گردی جاری و ساری ہے ․ یہ مذہبی اشرافیہ کو وہ بھیانک چہرہ ہے جو عوام الناس کے سامنے کبھی نہیں آیا ․ دوسروں کے معصوم بچوں کو سو کالڈ افغان و کشمیر کے جہاد کی بھینٹ چڑھانے والوں کے اپنے بچے امریکہ و کینڈا کی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں جہاں ہر وہ چیز عام ہے جسے یہ لوگ بے حیائی کہتے ہوئے ان قوموں پر لعن طن کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ․
جہاں تک مجھے یا د پڑتا ہے ایک دفعہ محترمہ عارفہ سیدہ ظہرا نے محترم قاضی حسین احمد مر حوم سے پو چھا تھا کہ آپ اپنے بچوں کو تو باہر پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں لیکن دوسروں کے بچوں کو جہاد پر جانے کا درس دیتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے ؟ تو محترم قاضی صاحب نے بڑا تاریخی جواب دیا تھا کہ اللہ تعالی نے ہر بندے کو کسی مخصوص کام کے لیے چنا ہو تا ہے جس پر ڈاکٹر عارفہ کا جواب بڑا فکر انگیز تھا کہ اگر یسا ہے تو پھر اللہ تعالی نے آپ کو لسٹ بھی بھجی ہو گی کہ کس نے جہاد پر جانا ہے اور کس نے باہر پڑھنے․
ہماری بد نصیبی یہ کہ ہم اپنی جہالت و کم عقلی کی وجہ سے مذہبی و سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں کے کھلونے ہیں ․ جس جہالت کے ہم پروردہ ہیں اسی جہالت کو ایک مقدس اثاثہ سمجھتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کو سونپ دیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اگر ہم زندگی بھر کٹھ پتلیوں کی طرح ان مذہبی و سیاسی مداریوں کی ڈگڈگی پر ناچتے رہے کہ تو کم از کم یہ میراث اپنی اولاد کو تو نہ دے کے جائیں ․ ہمارے بر عکس ہمارے نام نہاد راہبر ہمارے بچوں کو جہاد کا ایندھن بناتے رہے ہیں ، ویسٹ کو بے حیا ، بد کردار، اور پتا نہیں کیا کیا کہتے رہے ہیں لیکن ان اپنی اولادیں اسی بے حیا اور بد کردار معاشرے کی بولڈ یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے رہی ہیں ․
غریب کا بچہ مدرسے میں مولویوں سے ڈنڈے کھاتا لوگوں کے چندے پر سائنس و ٹیکنالوجی سے ہزاروں کو س دور وہ سب پڑھے گا جو اسے سی زندگی بھر پیٹ بھر کر روٹی دے سکے جب کہ ویسٹ کے خلاف جہاد کرنے والے ہمارے محترم راہبر لیاقت بلوچ کے بیٹے تورنٹو سے پی ایچ ڈی کریں گے․ وہ ایسی کون سی چیز ہے کہ احمد جبران بلوچ کو جہاد پر جانے یا مدرسے میں حفظ کرنے سے روکتی ہے؟ یہ وہ دوغلہ پن ہے جو اس ملک کی اشرافیہ کی میراث ہے․ لیڈر خود با ہر بیٹھے ہیں ان کی اولادیں زندگی کو انجوائے کر رہی ہیں لیکن یہاں انسانی خد و خال والی zombiesان لیڈروں کے لیے سر عام سڑکوں پر نعرے مارتے ہوئے چھتر کھا رہی ہیں کو ئی لیگی ہے ، کوئی جیالا، کوئی یوتھیا تو کوئی جماعتی لیکن ان چیز جو سب میں کامن ہے وہ ہے غلامی ،نسل در نسل غلامی ․ اور غلامی بھی ان لوگوں کی جنہیں انسان کہنا بھی انسا نیت کی تذلیل ہے ․
آپ نے جن کو اپنے قافلوں کے را ہبر بنایا ہوا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے پیسہ و اقتدار، اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو یہ حیرت ناک انکشاف ہوتا ہے کہ سیاسی مافیا تو چلیں ہے ہی کرپٹ لیکن مذہبی مافیا بھی لینڈ کرزورں پر چڑھی نظر آتی ہے ․ جو لوگ دن رات ہمیں میانہ روی کا سبق دیتے ہیں وہ خو د ایک بادشاہ جیسی زندگی گزار رہے ہیں
خدارا ان مذہبی و سیاسی بونوں کے چنگل سے نکلیں کیونکہ یہ لوگ آپ کے راہبروں کے بھیس میں چھپے وہ ڈکیت ہیں جن کا کام آپ کو استعمال کر کے اپنا الو سیدھا کرنا ہے ․ آج سب کچھ آپ سے ایک کلک کے فاصلے پر ہے علم کو خود تلاش کریں ، جوش جذبات والی تقریوں ، موٹی ویشنل لیکچروں، پر و فیشنل مولویوں اور ان سو کالڈ جہادیوں کے سحر سے اپنے آپ کو آزاد کروائیں ․
 محترم نائب امیر جماعت اسلامی کے خوشی بھرے ٹویٹ سے مجھے وہ دن یا د آ گیا ہے جب میرے پڑوسی کی کشمیر سے شہادت کی خبر آئی تھی تو اس کی ماں راتوں کو سو نہیں سکتی تھی اور روتی ہوئی کہتی تھی کہ جب بھی میری آنکھ لگتی ہے میرا بیٹا میرے خواب آتا ہے اسے گولیاں لگی ہوئی ہیں اور وہ مجھ سے پانی مانگتا ہے وہ ماں سسک سسک کر مر گئی تھی صرف اپنے بیٹے کے لیے اور اس جیسی کتنی مائیں ہو ں گی جن کے بیٹے کسی ٹورنٹو یونیورسٹی تک پہنچنے سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے گئے کیونکہ جماعت اسلامی کوجہاد زندہ رکھنا تھا لیکن دوسروں سے لخت جگر وں کے سینے چھلنی کروا کر․
 جناب لیاقت بلوچ صاحب دلی مبارک باد قبول کریں جناب احمد جبران کی کامیابی پر لیکن اگر تھوڑی سی اخلاقی جرات ہو تو قوم سے اور خاص کر ان ماوں اور بوڑھے باپوں سے کم از کم معافی مانگ لیں جن کے معصوم بیٹے آپ نے افغان و کشمیر جہاد کی بھینٹ چڑ ھا دئیے ․

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :