تصویر کا دوسرا رخ

بدھ 7 جولائی 2021

Ahmed Adeel

احمد عدیل

اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے پر ایک ایسا کرب جو ان بد نصیب چہروں پر خود بخود آ جاتا ہے جن کے بچے ان کے سامنے بھوک سے بلک رہے ہوں ۔وہ کافی یا چائے پینے سے بھی انکاری تھا کیونکہ اس کے نزدیک ٹائم سکوائر بلڈنگ کے سولہویں فلور پر واقع اس آفس میں بیٹھ کر کافی یا چائے کا ایک گھونٹ بھرنا بھی اپنی اس فیملی سے نا انصافی تھی جو فلپائن کے ایک دور دراز جزیرے میں اس آس پر بیٹھے تھے کہ کب ہمیں تھائی لینڈ سے پیسے وصول ہوں جن سے ہم کم از کم کھانے پینے کا سامان لے کر اپنے دو دن سے بھوکے پیٹ کی آگ بجھا سکیں ۔

لیکن یہاں پیسہ بھیجنا والا کرونا کی وجہ سے اپنی جاب سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا اور اس کے پاس اپنی بھوک مٹانے یا کمرے کا کرایہ دینے کے بھی پیسے نہیں تھے ۔

(جاری ہے)


سر مجھے تسلی دلاسا یا موٹی ویشن کی نہیں بلکہ جاب کی ضرروت ہے تا کہ میں کم از کم فلپائن میں اپنی فیملی کو فیڈ کر سکوں ۔ میں دس سال سے تھائی لینڈ میں سائنس ٹیچر کی جاب کر رہا ہوں لیکن اب سب سکولز بند ہونے اور لاک ڈاون کے باعث میں اس موڑ پر کھڑا ہوں جہاں مجھے کوئی جاب بھی مل جائے تو میں کرنے کو تیار ہوں بے شک وہ ٹائلٹ کی صفائی کی جاب ہی کیوں نہ ہو۔


ہم میں سے بیشتر لوگوں کی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پر آگے بڑھنے کے سب دروازے بند ہوچکے ہیں ۔ ایسے کمزور لمحوں میں ہم اپنی قسمت کو کوستے ہوئے کسی نہ کسی ایسے راستے یا سہارے کی تلاش میں نکلتے ہیں جو ہماری نظروں میں ایک آخری آپشن ہوتا ہے۔ میرے سامنے بیٹھا ہوا سائنس ٹیچر بھی مایوسی، بے بسی اور نا امیدی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا ۔


اگر آپ کو سائنس ٹیچر کی جاب مل جائے اور پے منٹ بھی روزانہ ہو تو کیا آپ پھر بھی ٹائلٹ صفائی والی جاب کو تر جیع دیں گے؟ میرے سوال پر اس نے ٹشو سے اپنی آ نکھیں پو نچھتے ہوئے حیرانگی سے میری طرف دیکھا۔ سر میں پچھلے ایک ماہ سے جاب کی تلاش میں ہوں اور شاید ہی کوئی سکول ایسا ہو جہاں میں نے اپلائی نہیں کیا لیکن جب سکولز ہی بند ہیں تو مجھے ٹیچنگ کی جاب کون دے گا؟ ڈئیر رسل، یہ آپ کا پوائنٹ آف ویو ہے کیونکہ آپ سارا علم اور تجربہ ہوتے ہوئے بھی تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ رہے ہیں ۔

آپ نے ایک ماہ میں دو دفعہ چرچ جا کر دعا کرانے سے لے کر پچاس سے زائد سکولوں میں اپلائی کرنے تک ہر کام کیا ہے سوائے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے۔
 اور وہ دوسرا رخ کیا ہے جو میں مس کر گیا ہوں؟ اس کی آواز میں طنز نمایاں تھا۔ تصویر کے اس دوسرے رخ کی ابتدا آپ کی فرسٹ Presentationسے ہوتی ہے جو کہ آپ کا Resumeہے ۔ آپ کا یہ Resumeآپ کو ری پری زینٹ کرتا ہے لیکن میرے سامنے پڑا ہوا یہ پیپر جسے آپ اپنا Resume بتا رہے ہیں سب کچھ ہو سکتا ہے سوائے آپ کے سی وی کے۔

آپ کے اس سی وی پر کوئی آپ کو آفس بوائے کی جاب بھی نہیں دے گا۔ سب سے پہلے تو Novoresumeیا کسی اور ویب سائٹ پر جا کر اپنا ایک پروفیشنل سی وی بنائیں ۔ اس کے بعد یہ آن لائن ٹیچنگ کی ویب سائٹس ہیں ان پر اپلائی کریں اور اس کے بعد یہاں سینکڑوں ایجنسیاں ہیں جن کا کام ہی سکولوں کو فارن ٹیچرز ڈھونڈ کر دینا ہے اور آج کل تو یہ لوگ Desperateہیں کہ کوئی ایسا ٹیچر ملے جس کے پاس پروفیشنل ٹیچنگ لائسنس ہو اور آپ یہاں ٹائلٹ کی صفائی کرنے والی جاب ڈھونڈرہے ہیں۔

اگر آپ کو آن لائن جاب کی آفر ہوتی ہے تو آپ کو پے منٹ ڈیلی یا ویکلی بیسز پر ہوگی ، اگر آپ کسی سکول کو جائن کرتے ہیں تو پہلے پندرہ دن یا ایک ماہ کی ایڈوانس تنخواہ لے کر آپ اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں ۔ دوسری ایک چیز جو میں نے آپ کی اس دس سال پرانی سی وی میں دیکھی ہے وہ ہے آپ کی جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر گزاری گئی زندگی جس میں آپ نے دس سال میں کوئی ایک بھی ایسا کورس نہیں کیا جو آپ کے نالج کو اپ ڈیٹ کرسکے ۔

آپ کا دس سال کا ٹیچنگ کیرئر سوائے ایک لگی بندھی تنخواہ کے آپ کو اور کچھ نہیں دے سکا لیکن ایک ماہ پہلے جب آپ کی تنخواہ بند ہوئی ہے تو آپ اسی لمحے دس سال پہلے والی پوزیشن پر آ کر کھڑے ہو گئے ہیں یہ سب کس کا قصور ہے؟ رسل کی آنکھوں میں اب کرب کی جگہ بے یقینی تھی ۔ اس بے یقینی کو ساتھ لیے کافی کا بھرا ہوا کپ ٹیبل پر چھوڑ کر وہ آفس سے نکل گیالیکن اس کے تیسر ے دن بعد میسنجر پر اسکا مسیج آیا کہ اسے ایجنسی کے تھرو ایک پرائیوٹ میں سکول میں آن لائن ٹیچنگ کی جاب مل گئی ہے اورسکول $250لون دینے پر تیار ہے تا کہ میں اپنے روم کا رینٹ دے کر کچھ پیسے اپنی فیملی کو بھیج سکوں ۔

اس کے ساتھ ہی
میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے آپ کا پتا آپ کے ایک فلپائنی دوست نے دیاتھا اور میرا خیال تھا آپ مجھے کوئی جاب آفر کریں گے اس لیے میں خود کشی کے پلان کو ادھورا چھوڑ کر ایک آخری ٹرائی کرنے آپ کے پاس آیا تھا لیکن جس لمحے آپ نے مجھ کو لیکچر دینا شروع کیا اور مجھ پر تصویر کا دوسرا رخ نہ دیکھنے کا طنز کیا اس وقت آپ مجھے دنیا کے قابل نفرت ترین آدمی لگے لیکن اب مجھے احساس ہوا ہے کہ میں کھلے دروازوں کو دیکھنے کی بجائے بند دروازوں سے سر ٹکرا رہا تھا ۔


یہ المیہ صرف ایک آدمی کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے کہ ہم مشکل و قت میں Panic ہو جاتے ہیں ۔ ہم مندروں،مزاروں، چرچوں، مسجدوں سے لے کر پیروں کے پاؤں پکڑنے تک ہر کام کرتے ہیں اور جب اس سب کے باوجود جب ناکامی ہمارامقدر بنتی ہے توہم خدا سے اپنی قسمت کا گلہ کرتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ جو اگر ایک دروازہ بند ہوا ہے تو اسی خدا نے ہمارے لیے دس دروازے کھول دیے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے ہمیں مایوسی کے نکل کر تصویر کا رخ پلٹنا ہوگا ۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :