” نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم “

جمعرات 2 مئی 2019

Ahmed Khan

احمد خان

تمام تر دعوؤ ں کے باوجود تعلیم کے میدان میں ہم کا مرانی کے وہ جھنڈ ے نہ گا ڑ سکے لگے بیس سالوں سے کم از کم ہماری حکومتیں جس کا ڈھنڈورابڑے شد و مد سے پیٹتی رہی ہیں ، جتنا دل کر ے ناک بھوں چڑھا ئیے حقا ئق مگر یہی ہیں ، لگے دو دہا ئیوں میں اساتذہ کے تقرر کے لیے اعلی تعلیم کا زینہ مقرر کیا گیا ، حکو متی سطح پر اپنا ئی گئی اس پالیسی سے ہوا یہ کہ اعلی تعلیم کے حامل مر د وخواتین شعبہ تعلیم سے جڑ گئے مگر حکومتوں کی الم غلم پا لیسیوں سے تعلیم کی ”کل “ سید ھی نہ ہو سکی ، چند سالوں میں اساتذہ کی پیشہ ورانہ تر بیت کا شور و غوغا ہے ، چنا نچہ سولہ درجے کی تعلیم کے حامل اساتذہ کو ” طر ح طرح “کے کورس کر وانے کی رسم شعبہ تعلیم میں خوب زروں پر ہے ، اصل مد عا کیا ہے ، معلم میں معلم کے اوصاف پیدا کر نا ضروری ہیں آپ اگرتعلیم کے شعبے میں انقلاب لا نے کے متمنی ہیں پھر شعبہ تد ریس سے وابستہ مر د و خواتین کی اخلاقی تر بیت کا ساماں کیجئے ، جس دن معمار ان قوم میں یہ جذبہ پروان چڑھا کہ ہر معلم نے اپنے پیشے کے ساتھ کا مل انصاف کر نا ہے ، جس دن معما ران قوم نے اپنی ذ مہ داری محسوس کر لی کہ اس نے نئی نسل کی اسلا می ، مشرقی اور انسانی اقدار کے عین مطابق تربیت کر نی ہے ، سمجھ لیجئے کہ شعبہ تعلیم میں کم از کم درس و تد ریس کے حوالے سے سارے مسائل دریا برد ہو جا ئیں گے ، لگے دو دہا ئیوں میں اگر معیار تعلیم کا بیڑا غرق ہوا تو محض اس وجہ سے کہ جانتے بو جھتے تعلیم کے شعبہ میں بہتری کے نام پر ایسی ایسی پا لیسیاں متعارف کی گئیں جس سے حقیقی معنوں میں معیار تعلیم اور اسلا می اقدار کا جنازہ بڑے دھوم سے نکلا ، آج شعبہ تعلیم میں ریاضی کے ماہر بھی تشریف فر ما ہیں ، فزکس کے اعلی دماغ بھی آپ کو تدریس کے فرائض سر انجام دیتے نظر آئیں گے ، بیالو جی جنہوں نے گھول کر پی رکھی ہے وہ بھی بطور معلم موجود ہیں ، اردو کے نبض پر ہا تھ رکھنے والے بھی تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ، کیمیا دانوں کی صلا حیتیں بھی شعبہ تعلیم کو میسر ہیں ، طرفاتماشا مگر ملا حظہ کیجئے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ شعبہ تعلیم ” ترقی معکوس “ کی راہ پر گا مزن ہے ، اعلی تعلیم یا فتہ اساتذہ کے اس شعبے میں تشریف آوری کے با وجود آخر وہ کو ن سا کینسر ہے جو معیار تعلیم کو اندر ہی اندر چاٹ رہا ہے ، کیا وجہ ہے میعار تعلیم اور اخلاقی قدروں کے حوالے سے نئی نسل معاشرے کے امنگو ں کے مطابق سنور نہیں رہی ہے ، در اصل تعلیم میں بہتری کے نام پر الم غلم پا لیسیوں کے نفاذ نے اس شعبے کو تبا ہی کے دہا نے پر پہنچا دیا ہے ، ٹھنڈے کمر وں میں بیٹھے وزراء اور افسر شاہی کے دل میں جو بات آئی اسے پالیسی کا روپ دے کر شعبہ تعلیم پر تھو پ دیا گیا ، معاشرے کے روایات ، بود وباش ، ثقافت ، سماجی اور اسلا می اقدار کے ترازو میں تولے بغیر ” اغیار “ کی تہذیب سے لگ کھا نے والی ان نادر شاہی پا لیسیوں سے تعلیم میں سنوار کے بجا ئے بگاڑ پیدا ہو تا چلا گیا ، مخلوط طر ز تعلیم کی پا لیسی کیا کیا گل کھلا رہی ہے ، نصاب میں بہتری کے نام پر کیا کیا مسائل پیدا ہو چکے ، اساتذہ کے بارے میں عجب قسم کی پا لیسیوں کے عام ہو نے سے سچ پو چھیے تو اب شعبہ تعلیم میں تعلیم نام کی چیز برائے نام رہ گئی ، ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کیا کتابو ں کو محض رٹ لینے کا نام تعلیم ہے ، کیا تعلیم محض ڈگری کے حصول کا نام ہے ، کیا تعلیم ریا ضی اور انگریزی پر عبور کا حاصل کر نے کا نام ہے ، بھلے اغیار کے ہاں تعلیم کا مقصد ڈگری کا حصول ٹھہرتا ہو ، مگر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک اور اسلا می طرز کے معاشرے میں تعلیم کا مقصد محض دو جمع دو چار سیکھنے کا نام تعلیم قطعاً نہیں ، ہما ری ضرورت ایسی تعلیم ہے جس کے حصول کے بعد ایک فرد وطن عزیز کا ذمہ دار اور مفید شہری بن سکے ، تعلیم کا زینہ طے کر نے کے بعد اسے اسلامی عقا ئد کے بارے کامل آگاہی حاصل ہو ، وہ اچھے برے میں نہ صرف تمیز کر سکے بلکہ اچھا ئی کے راستے پر گامزن ہو نے کا جذبہ اس میں بیدار ہو ، اب ذرا اپنے نظام تعلیم پر ایک نگاہ غلط ڈال لیجئے ، تعلیم کے نام پر بے شمار دکانیں کھل چکیں ، اعلی تعلیم کے نام پر نجی اور سرکار کی نگہبانی میں درس گاہیں قدم قدم پر موجود ہیں ، سوال مگر وہی کیا یہ درس گا ہیں نئی نسل کی تربیت کا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں ، خدا لگتی یہ ہے کہ اس وقت ہمارے نظام تعلیم کی حالت نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والی ہے ، آدھا تیتر آدھا بٹیر طرز کے اقدامات نے ہمارے نظام تعلیم کو کہیں کا نہ چھوڑا ، غیروں کے اقدار اور پالیسیوں کو اپنا نے سے ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ، اگر پا کستانی معا شرے سے لگ نہ کھا نے والی تعلیمی پا لیسیوں سے جان نہ چھڑا ئی گئی ، پھر ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں، نظام تعلیم میں رائج یہی پا لیسیاں ہمیں پستی میں دکھیلنے کے لیے کا فی ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :