” رشک کمر سے خمیدہ کمر تک “

جمعہ 18 جون 2021

Ahmed Khan

احمد خان

لگے دنوں سال اول و دوم کے طلبہ نے امتحان کی پالیسی کے بابت احتجاج کیا اس احتجاج میں ایک طالب علم کے ہاتھوں میں پکڑے کتبے پر بہت سے اہل دل رنجیدہ ہو ئے صد شکر کہ طباعتی اور بر قی ذرائع ابلاغ نے اس قضیے سے صرف نظر کیے رکھا ، سینہ گز ٹ کے ذریعے مگر اس کتبے پر درج عبارت گردش کر تی رہی بہت سے اہل دل کا سوال تھا کہ ہماری نئی نسل کن ” حدوں “ میں داخل ہو چکی ، سوال مگر یہ ہے کہ کم عمر بچوں کو ایسی ” معلومات“ کہاں سے ملتی ہیں ، ظاہر سی بات ہے اپنے بڑوں سے اپنے ارد گرد کے ماحول سے ، بھلا یہ کو ئی بھولنے والی بات ہے کہ چھو ٹے اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلا کر تے ہیں بڑوں کو جس طرح دیکھتے ہیں ان سے جو سنتے ہیں بچے بھی اسی راہ کے مسافر بن جا تے ہیں ، محترمہ فاطمہ جناح کا کیا قصور تھا صرف یہ کہ انہوں نے صدارتی انتخاب لڑ نے کی جسارت کی تھی ان کے مخالفین ان کے خلاف کس حد تک گئے اس پر اسلاف نے بہت سے صفحات کا لے کیے ، بیگم نسیم ولی خان کے بارے میں بھی ان کے مخالفین کے ” کلمات “ تاریخ کا سیاہ باب ہیں ، محترمہ بے نظیر نے صنف نازک ہو نے کی جو سزا بھگتی بھلا وہ کس سے پو شیدہ ہے ، محترمہ کا کیا قصور تھا ، صرف یہ کہ وہ ایک سیاسی جماعت کی سربراہ تھیں ، ہو نا کیا چا ہیے تھا ، جنہیں محترمہ کی طرز سیاست سے اختلاف تھا وہ ڈٹ کر ان کی سیاسی مخالفت کر تے جنہیں محترمہ کے نظریات و افکار سے نفرت تھی وہ کھلے بندوں ان کے نظریات سے ” علم بغاوت “ بلند کرتے ، ہوتا مگر کیا رہا ، محترمہ کا سیاسی میدان میں مقابلہ کر نے کے بجا ئے ان کی خاتون ہو نے کو کمزروری بنا کر ان کی ذات پر ان کے سیاسی مخالفین حملہ آور ہو تے رہے گویا ذاتیات کا جو بیج وطن عزیز کی سیاست میں سیاست کے سیانوں نے بویا تھا وہ اب تناور درخت بن چکا لگے دنوں ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں دو نامور سیاست دانوں نے جو ” گل “ کھلا ئے اسے پوری قوم کے ساتھ ساتھ نو خیز دماغوں نے بھی سنا اور دیکھا ابھی اس واقعہ پر سیاسی پنڈتوں کی ” لے دے “ جاری تھی کہ سالا نہ میزانیہ کے اجلاس میں ہو نے والے واقعہ نے اگلی بچھلی کسر برابر کر دی ، عوام کے نما ئندے قومی اسمبلی میں اعلا نیہ بغیر کسی شرم اور جھجک کے جس طر ح سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہو تے رہے جن ” القاب“ سے ایک دوسرے کو نوازتے رہے جس طر ح سے ایک دوسرے کے گریبانوں کو تاتار کر تے رہے جس طر ح سے خواتین کی موجودگی میں اپنی اپنی شخصیت سے پردہ سرکتے رہے گویا بات اب کو ٹھو ں چڑھ چکی ، عوام کے نما ئندوں سے عام طور پر شائستگی وضع داری اور بڑے پن کی توقع باندھی جاتی ہے ، عوام کے انہی رہبروں سے سیاست کے نو آموز بہت کچھ سیکھا کر تے ہیں نئی نسل ان کی پیروی کر تی ہے ، کبھی اسی ایوان زیریں میں نادر روزگار بولا بلکہ تول کر بولا کر تے تھے ، ان کے نپے تلے جملے ان کی کمال کی الفاظ کی ادائیگی بولتے توایک سماں باند ھ لیتے، سیاست کے اکابرین کی تقاریرسے سیاست اور صحافت کے طالب علم نہ صرف لطف لیا کر تے بلکہ ان کی تقاریر سے بہت کچھ سیکھا کر تے تھے اسی طرح سکولوں اور اعلی درس گاہوں کے طالب علم اچھے مقرر کے درجے پر فائز ہو نے کے لیے اپنے انہی سیاسی رہبروں کے انداز و اطوار کو اپنا یا کر تے تھے ، کسی کے گماں میں نہ تھا کہ قومی اسمبلی میں کبھی ایسے چہرے بھی پہنچیں گے جو ایسے تما شے بر پا کر یں گے ، قومی اسمبلی میں رونما ہو نے والے حالیہ قضیے سے اسپیکر کو جدا نہیں کیا جاسکتا ،اس سارے المیے میں اسپیکر کا کردار نہا یت کمزور رہا اگر بروقت قومی اسمبلی کے اسپیکر صائب قدم اٹھا تے شاید اقوام عالم میں مملکت خداد کی اتنی جگ ہنسا ئی نہ ہوتی ، سارے سمندر کو گندہ کر نے والی چند مچھلیوں کو اجلاس سے نکال باہر کیا جاتا تو معاملات اس حد تک خرابی بسیار کا شکار نہ ہوتے مگر بوجوہ اسپیکر بروقت فیصلہ کر نے سے قاصر رہے جس کے بعد جو ہوا اسے الفاظ میں بیاں کر نے سے قلم قاصر ہی سمجھیں ،اس سارے معاملے سے جڑا اہم تر نکتہ یہ ہے ، کیا سیاست دانوں کے روا رکھے جا نے والے طور طریقوں سے جمہو ریت اور سیاست کو خطرات لا حق نہیں ہوں گے ، عیاں سی بات ہے سیاست اور جمہو ریت کے لیے سیاست دانوں کے ایسے کارنا مے کو ئی نیک شگون نہیں، سیاست دانوں کے اس طر ح کے طرز عمل سے سیاست کی کمر جھکتی ہے اور جب سیاست کی کمر جھکتی ہے اس کے بعد حالات کیا رخ اختیار کر تے ہیں ما ضی کو فرامو ش کر نے والے سیاست داں ذرا ما ضی کے حالات کو اپنے ذرخیز ذہنو ں میں تا زہ کر لیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :