”مقتل میں زباں سے جو انکار نکل جائے“

اتوار 29 اگست 2021

Ahmed Khan

احمد خان

معاشرتی ناہمواریوں پر ہجو م وایلا کر تا ہے چیختا ہے چلا تا ہے طعنہ زنی کر تا ہے مگر بے ہنگم اور بے سمت توانائیاں صرف کر نے کے نتائج حسب منشا نہیں نکلتے لگے تہتر سالوں سے مملکت خداداد کے باسی بھی یہی کچھ تو کر رہے ہیں ، معاشرتی حالات سے ہر شہر ی عاجز آچکا ہے ، سماجی رویوں پر ہر دوسرا فرد شاکی ہے ، معاشی تنگی کا رونا ہر کو ئی رورہا ہے عرصہ دراز سے عوامی حلقوں میں طبقہ اشرافیہ کے خلاف لا وا پک رہا ہےِ عوامی حلقوں میں برس ہابرس سے رواں تنقید کے نتائج مگر عوامی حقوق کے باب میں رائیگاں نظر آتے ہیں عوامی چو کو ں اور چوباروں میں زوردار بحث مباحثے بس ہوا میں بکھر جا تے ہیں گویا عوامی سطح پر شور شرابے کے نتائج کبھی بھی اور کسی بھی اجتماعی قضیے میں دیر پا نہیں نکلے ، ایسا کیوں ہے اس سوال کا جواب تلا ش کر نے کی سنجیدہ طور پر شاید کبھی سعی نہیں کی گئی ، گرانی آج کا نہیں کئی دہا ئیوں سے وطن عزیز کا مسئلہ ہے مگر ہنوز مسئلہ فیثا غورث ہی ہے ، بے روز گاری اب مملکت خداداد کے باسیوں کے گلے کی ہار بن چکی ، ، غربت کی وبا اب ہر دوسرے گھر کی مہمان بن چکی ، ناانصافی کا سانپ عام آدمی کو روز ڈستا ہے ، لاقا نونیت پاکستانی معاشرے میں سرطان کی بیماری بن چکی ، اجتماعی مسائل کی ایک طویل فہر ست ہے جو ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہی ، عام شہر ی بنیادی حقوق سے گاہے گاہے محروم ہو تے چلے جا رہے ہیں، جب بھی شہر یوں کے حقوق پر ڈاکہ مارا جاتا ہے بس کچھ کونوں کھدروں سے چند ایک آوازیں بلند ہوتی ہیں اور پھر ان آوازوں کی گونج طاقت کی دیواروں سے ٹکرا کر نامراد لو ٹ آتی ہیں ، کیا محض پر جوش مباحثے سے کسی معاشرے کے اجتماعی مسائل حل ہو سکتے ہیں کیا چند سر پھروں کے ” سر “ اٹھا نے سے پوری قوم کا بھلا ہو سکتا ہے ، کیا سماجی نا انصافیوں پر محض رونے دھو نے سے طاقت کے سر چشموں کو ناک کی سیدھ میں کیا جاسکتا ہے اگر زبانی جمع تفریق سے وطن عزیز کے باسیوں کا بھلا ہوسکتا تھا شاید آج وطن عزیز میں بسنے والے عیش و طرب کی زندگی گزار رہے ہوتے ، زندہ قومیں وایلا نہیں کر تیں زندہ قومیں دوسروں کو بیساکھی بنا نے کا چلن نہیں اپنا تیں ، زندہ قومیں اپنے حقوق کے لیے دراصل سر پر کفن باندھ کر میدان عمل میں نکلا کر تی ہیں اور اپنے حقوق کے حصول کے بعد چین کی سانس لیا کرتی ہیں ، ہمارے کیا ہورہا ہے ، اجتماعی مسائل تو رہے ایک طرف کو ئی اپنے حق کے لیے کھڑا نہیں ہوتا ، یہا ں کی عوامی ریت عجب سی ہے ، انفرادی حق کے لیے بھی ہم خاموش تما شائی بنے رہتے ہیں اور دوسروں سے توقع کر تے ہیں کہ وہ ہمارے حق کے لیے صدا بلند کر یں دراصل دوسروں کے پیچھے چھپنے کی اسی عادت بد نے مملکت خداداد کے باسیوں کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ بھو ک و افلاس کی وجہ سے لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں ، بے روز گاری کی وجہ سے لا کھوں شہری اذیت کا شکار ہیں ، بے شمار ایسے ہیں جو نظام انصاف کے ہاتھوں آہ و فغاں کر رہے ہیں گویا بے سمت سفر نے پاکستانی معاشرے کو مر ض بڑھتا گیا جو ں جو ں دوا کی سی صورت حال میں میں دھکیل دیا ہے ، معاشرے میں دخیل ہو نے والی برائیوں پر ہر کو ئی رائے زنی کر رہا ہے ہر ایک معاشرتی اقدار کی پامالی پر کڑ ھ رہا ہے ، سماجی برائیوں پر ہر ایک دل کر فتگی کا اظہار کر رہا ہے ، تمام تر ہا ؤ ہو کے باوجود معاشرہ سدھا ر کی بجا ئے بگاڑ کے منازل طے کر رہا ہے اور بڑی تیزی سے طے کر رہا ہے ، عیاں سی بات ہے ہجوم کی کو ن سنتا ہے ہجوم کی چیخ وپکار پر کب کسی نے کان دھر ے ہیں ، ہجوم کے مسائل کے حل کے لیے بھلا کیوں ارباب اختیار کو شاں ہو ں ، یاد رکھیے اونچی فصیلوں میں صرف قوموں کی آواز سنا ئی دیتی ہے ارباب اختیار ہمیشہ قوموں کے آگے اپنا سرجھکاتے ہیں ، باطل قوتیں ہمیشہ قوموں کے ہاتھوں رسوا ہو اکرتی ہیں ، قومیں ہی قانون کی حاکمیت کو یقینی بنا یا کر تی ہیں ، ہجوم کے طور طریقوں سے زندگی بسر کر نے کے ” مزے “ خوب چکھ لیے اگر اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں پھر قوم بننے کی جستجو کیجیے، تعصب رنگ ونسل ذات پات اور سیاسی وابستگیوں کے خول اتار کر صرف اور صرف راہ حق پر چلنے کو زدراہ بنا ئیے ، قلیل وقت میں برسوں کے سلگتے مسائل کس طر ح سے حل ہو تے ہیں ، معاشرے میں قانون کا چلن کیسے سر بازار ہوتا ہے ، بڑے بڑے مگر مچھوں سے کیسے معاشرے کی جاں خلاصی ہوتی ہے ، ناداروں کو حقوق کیسے ملتے ہیں ، کمزوروں کے لیے قانون کس طرح سے اپنا راستہ بنا تا ہے ، شرط بس اتنی سی ہے کہ بھانت بھا نت کی بولیاں بولنا تر ک کر دیجیے ،اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی سوچ کو پروان چڑ ھا ئیے، انفرادی مفاد کو ضرور عز یز رکھیں لیکن جب اجتماعی مفاد کا معاملہ آئے تو ایک ذمہ دار شہری کے طور پر اپنے حصے کا فر ض ادا کر یں ، جب تلک ایک ذمہ دار قوم والے رویوں کو معاشرے میں راسخ نہیں کر یں گے اس وقت تک بس نو ٹس لینے قرار واقعی سزا دینے اور مسائل کے حل کر نے کی یقین دہانی والے بیانات آپ کا مقدر بنے رہیں گے آخر میں عاطر عثمانی کی سنتے جا ئیے۔

(جاری ہے)


مقتل میں زباں سے جو انکار نکل جائے
آواز کے جھنجھٹ سے للکار نکل جائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :