”اے رہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے “

ہفتہ 30 اکتوبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

لگے دنوں میں دو بڑے گھروں میں سمری کے وجود پر سر د مہر ی کی کیفیت سے چا ئے کی پیالی میں یار لوگوں نے ایک طوفان بر پا کر دیا تھا گو یا وقت رک ساگیا تھا بلکہ یو ں کہنا کسی حد تک بجا ہو گا کہ اثر ورسوخ سے لیس احباب نے دانستہ سمری کے نکتے پر وقت کی باگوں کو روک دیا تھا ذرائع ابلاغ پر سب سے اہم مباحثہ اور موضوع خفیہ ادارے کے سربراہ کی تقرری کا رہا ، ہر کونے ہر کھدرے سے اندازوں کے ایسے ایسے تیر چلا ئے گئے کہ کیا کہنے جن احباب کے کمان تیروں سے خالی تھے انہوں نے ” تکوں “ پر اکتفا کر نے میں عافیت سمجھی ، تمام تر صورت حال کو ایسے ایسے رنگین طرح سے بیاں کیا گیا جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ، عام آدمی کی جاں خلاصی تب ہو ئی جب خفیہ ادارے کے سربراہ کے تقرر نامے کی باد صبا ہر سو چلی ، ایک ایسے ادارے کے سربراہ کی سمری کو عام آدمی پر اس طرح سے ٹھو نسا گیا جیسے اس تقرر نامے سے عام آدمی کے تمام تر مسائل جڑے ہو ں دو گھر وں کے درمیاں سمری پر جتنی بحث ماضی قریب میں کی گئی اگر اس کا نصف بھی عام آدمی کے سمری پر اہل رائے اپنی توانیاں صر ف کر نے کی ٹھا ن لیں ، اٹھا نوے فیصد مرد و زن کے سرخ فیتے کی نذر بے شمار الجھن سلجھن کی ردا اوڑھ لیں ، عام آدمی کی سمری کو آج تلک تواتر سے طاقت ور حلقوں نے اپنادرد سر بنا نے کی سنجیدہ کو شش ہی نہیں کی ، یونین کونسل سے آغاز کر لیجیے ، عام آدمی کی جائز امر سے متعلقہ درخواست نما ” سمری “ دنوں میں بلکہ بسا اوقات مہینوں صاحب کے دراز میں پڑی رہتی ہیں عام آدمی دفتر کا چکر لگا لگا کر تھک جا تا ہے لیکن سرکار کے ” رموز اوقاف “ عام آدمی کی در خواست نما ” سمری “ کو سند قبولیت سے محرروم رکھتی ہے ، کچھ ایسا ہی حشر بلکہ نشر عام آدمی کی ” سمری “ کا اریب قریب ہر دفتر میں ہوا کر تا ہے اسسٹنٹ کمشنر سے ڈپٹی کمشنر ، کمشنر سے سیکرٹری ، وزیر ، ویزاعلی غرض اس سے اوپر تک کے عہدوں پر براجمان مہانوں کا عام آدمی کے مفاد سے لگ کھا نے والے درخواست نما ’ ’ سمری “ کے ساتھ ایسا ہی سست روی کا سلو ک ہوا کرتا ہے ، ماضی میں کئی اعلی افسران ایسے گزرے جن کی میزوں پر خلق خدا کے مسائل سے لبالب فائل ہفتوں بلکہ مہینوں پڑی رہتی تھیں آئے روز خلق خدا ان کے دفاتر کے چکر کاٹا کر تی تھی لیکن صاحبان کے پاس فقط ایک دستخط ثبت کر نے کا وقت نہیں ہوا کرتا تھا عین اسی طرح ماضی کے چند ایک وزراء اعلی نے ” سمری “ کے باب میں سست روی کے حوالے سے خوب شہرت اور ” داد “ سمیٹی ، کئی کئی ماہ تک عوام کے مسائل سے براہ راست لگ کھا نے والی سمریاں وزراء اعلی کے دفاتر میں سر د خانے میں پڑی رہتی تھیں سائلین بوچھ تاچ کر کر کے تھک جاتے تب کہیں جاکر کفر ٹو ٹتا ، سابق اور موجودہ کئی وزراء کے بارے میں بھی عوامی چو باروں میں فائل پر دستخط ثبت کر نے کے حوالے سے ایسے قصے زبان زد عام ہیں ، عوامی امور اور عوامی مفاد سے سرکار کے مہانوں کا کھلواڑ عہد حاضر کا نو حہ نہیں ، ایک طویل عرصے سے عوامی مفاد اور عوامی امور کے باب میں سرخ فیتے کا راج ہے ، طاقت ور اور سفارش کے ہنر سے لیس حلقوں کے فائل پر منٹوں میں دستخط ثبت ہو جا یا کرتے ہیں گویا ان کے فائل کو پہیہ لگا دیا جاتا ہے لیکن فانی دنیا میں جو طاقت اور سفارش کے ہنر سے محروم ہیں ان کی درخواست نما سمریاں آج بھی سرکار کے مہانوں کے ہاں لگی بندھی طریق کار سے گزرتی ہیں ، رائے عامہ اور ذرائع ابلاغ نے جس طرح سے دو بڑے گھروں کی سمری میں تاخیر پر اپنی توانیاں صرف کیں کیا ہی اچھا ہو اگر اثر و رسوخ کے وصف سے لیس ہمارے یہ پیارے راج دلا رے حلقے خلق خدا کی ” سمریوں “ کے ساتھ ہو نے والے ” حسن سلوک “ پر بھی آسمان سر پر اٹھا نے کی ٹھا ن لیں ، یقین واثق رکھیے بہت سے لا چار ہمارے ان جان سے پیارے حلقوں کے لیے دن رات جھولیاں پھیلا پھیلا کر دعائیں دیں گے ، مملکت خداداد میں المیہ کیا ہے ، یہاں طبقہ اشرافیہ کی چھینک بھی زور دار خبر بن جاتی ہے لیکن عام آدمی کے ساتھ ہو نے والا ستم بھی نہ تو رہبر کامل گردانے والے طبقے کو نظر آتا ہے اور نہ ہی عوام کے کان آنکھ اور ناک گر دانے جا نے والوں کو عام آدمی کا بڑے سے بڑا دکھ نظر آتا ہے ، معاشرے کے ” رہبر کامل “ حلقوں سے بس دست بد ست گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ وطن عزیز میں صرف دو فیصد ہی نہیں رہتے بلکہ وطن عزیز میں اٹھا نوے فیصد عوام کا بسیرا بھی یہی ہے کچھ ان کے حقوق کے لیے بھی صدا حق بلند کیا کیجیے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :