” حضور! یہاں تو ہر قصہ نسلہ ٹاور ہے “

پیر 6 دسمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

کراچی کا نسلہ ٹاور اس وقت رائے عامہ کے حلقوں کا موضوع خاص ہے عدالت عظمی کے عزت ماًب چیف جسٹس نسلہ ٹاور کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دے کر انہدام کے احکامات صادر کر چکے ، عدالت عظمی کے واضح اور سخت ترین احکامات کے باوجود نسلہ ٹاور گرانے میں سرکار کے پیا دوں نے کس کس طر ح سے روڑے اٹکا نے کی کوشش کی اگر عدالت عظمی روایتی طور پر فیصلہ صادر کر کے چپ سادھ لیتی ، یہ قضیہ اسی طر ح قائم و دائم رہتا ، نسلہ ٹاور کے قصے میں روایت سے ہٹ کر عدالت عظمی نے فیصلہ صادر کر نے کے بعد عمل درآمد تک اپنے احکامات کا پیچھا کیا تب کہیں جاکر نسلہ ٹاور کا قصہ پاک ہوا ، اس معاملے کا دوسرا رخ بھی ہے ، نسلہ ٹاور کیا کھمبی کی طرح راتوں رات خود کھڑا ہوا، ایسانہیں ، سرکار کی جگہ کس طر ح سے نجی ہاتھو ں میں گئی ، اس جگہ پر کس طر ح سے نسلہ ٹاور کی تعمیر کا منصوبہ بنا ، سرکار کی جگہ پر نسلہ ٹاور کی تعمیر کے بیسیوں اجاز ت نامے کس کس نے جاری کیے اور کس طر ح سے جاری کیے ، اتنے بڑے ” ہنگام “ میں کو ن کون سے طاقت ور ہاتھ ملوث تھے ، ان سب کے ہاتھوں سے ” دستانے “ اتارنا لازم ہے ، کیاصرف نسلہ ٹاور کے رہا ئشی اس سارے قصے کے مجرم ہیں ، اصل مجرم تو وہ ہیں جنہوں نے نسلہ ٹاور کھڑا کر نے میں کلیدی کردار ادا کیا ، ہونا کیا چاہیے ، آ ساں سی بات ہے کہ نسلہ ٹاور کی منظوری اور تعمیر میں جن بڑے مگر مچھوں نے سونے کے بھا ؤ دام کھر ے کیے ان کو نہ صرف پکڑیں بلکہ ان کو الٹا لٹکا ئیں ، نسلہ ٹاور کے اصل قصور وار وہ ہیں جنہوں نے کو ئلوں کی دلالی میں اپنے ہاتھ کا لے کیے اور چلتے بنے ، نسلہ ٹاور دراصل طاقت وروں کی ” میں نہ مانوں “ کا استعارہ ہے ، عدالت عظمی کی بھر پور دل چسپی لینے کے باوجود اگر طاقت ور اس قصے کو پاک کر نے کے لیے تیار نہ تھے پھر اندازہ لگا لیجیے کہ قانون کو جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی سمجھنے والے طاقت ور جب چاہیں جس طر ح چاہیں جیسے چاہیں قانون کو روندتے سکتے ہیں، قانون تو ان کے لیے موم گڑیا ہے ، خیر سے اب عدالتوں کے فیصلوں کو کو ڑ ے دان میں ڈالنا اس طبقے کا طرہ امتیاز بنتا جارہا ہے ، عام شہری جمع پونجی لٹاکر برسوں بعد جب عدالتوں سے انصاف کی ” سند“ حاصل کر تے ہیں ، طاقت کے یہی سر چشمے عام شہری کے ہاتھ میں عدالتی فیصلے سے سرعام روگردانی کر تے ہیں ، ہمارے دوست اور اجلے کردار کے مالک افضل مغل لگے دس برسوں سے کم وپیش ایک لاکھ مظلوموں کے اجتماعی حق کے لے سر گرداں ہیں نچلی عدالتوں میں اپنے دوستوں سمیت انصاف کے حصول کے لیے مقدمات لڑ تے رہے نچلی عدالتوں نے ان کے حق میں فیصلہ صادر کیا مگر عمل در آمد ندارد چار و ناچار عدالت عالیہ اپنا دکھڑا لے کر گئے عدالت عالیہ نے بھی ان کے جائز حق کو تسلیم کیا لیکن سرکار کے مہر باں حسب روایت پھر عمل درآمد سے انکاری ، مو صوف اپنی فر یاد عدالت عظمی لے کر گئے عدالت عظمی نے بھی ان کے حق میں فیصلہ صادر کیا ، تمام عدالتی فیصلوں کے باوجود ابھی تک ” عمل در آمد “ کے لیے در در کی خاک چھا ن رہے ہیں ، یہ صرف ایک نظیر ہے ، ایسی ہزاروں نظیریں دی جاسکتی ہیں کہ طبقہ اشرافیہ عدالتی احکامات اور فیصلوں سے کھلم کھلا کیسے کھلواڑ کر رہا ہے تازہ قصہ بھی سن لیجیے ، ایک ضلعی عدالت کے جج صاحب کے ساتھ طاقت ور گر وہ کی ” بیساکھیوں“ نے جو سلوک کیا اس کی بصری فلم دیکھ لیجیے ، سوال یہ ہے کیا طاقت ور طبقات ہر قانون سے بالا ہیں ، کیا طاقت وروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں سے کھلے عام رو گردانی کریں ، کیا طاقت ور طبقات کو سو خون معاف ہیں ، کیا طاقت ور طبقات کو ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس “ کی چھتری میسر ہے ، امیر اور غریب کے لیے الگ الگ معیارات کیوں رائج ہیں ، عام آدمی کو بکری چوری میں پس زنداں ڈال دیا جاتا ہے دوسری جانب امیر کو یہی قانون چھیڑ تا تک نہیں ، قانون اور نظام عدل ” اگر مگر “ کے ایک سو ایک نکتے نکال کر امیر کو باعزت بری کر دیتا ہے ، امیر کو بچا نے اور غریب کو مارنے کے سماجی المیے ہی نے سماج کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے ، رعایا کے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ سوا ہو تے جا رہے ہیں ، جرائم کی شر ح آسماں کو چھو نے لگی ہے ، ہر دوسرے قدم پر سماجی ناانصافی کی داستاں رقم ہو رہی ہے ، دوسروں کے حقوق غصب کر نے کا خوف ناک کھیل کھلے بندوں جاری ہے ، مظلوم چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں آہ وبکا کر رہے ہیں لیکن اقتدار پر براجمان اور اختیار کے ” ہنر کار “ عام آدمی کی فریاد سننے کے لیے تیار نہیں ، اس لیے کہ طاقت ور طبقے کو معلوم ہے کہ ان کا کو ئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، معاشرے میں بڑھتی بلکہ پھلتی پھو لتی سماجی ناہمو اری کا شافی علا ج یہ ہے کہ قانون کی عمل داری یقینی بنا ئی جا ئے اور نظام عدل ہر مظوم کے ساتھ ہو نے والی ناانصافی کو ” نسلہ ٹاور “ کی طرح نظیر بنا ئے جب تک عدل کے ایوانوں سے طاقت وروں کو الٹا لٹکانے کے احکامات صادر نہیں ہو تے وطن عزیز میں مظلوم اسی طرح ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے تلخ سچ یہی ہے کو ئی ما نے یا نہ مانے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :